کیا پاکستان اور بھارت بحری تنازعے کی تیاری کر رہے ہیں؟

پاکستان اور بھارت کے درمیان بحری تناؤ
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ تناؤ اور اس کے بعد ہونے والی چار روزہ جنگ کے بعد دونوں ممالک کی بحری افواج کے مستقبل کے تنازعات میں مرکزی کردار ادا کرنے کے امکانات پر ماہرین نے روشنی ڈالی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق یہ رجحان 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بحریہ کے کردار کی واپسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سٹرکیں بحال، پنجاب خوشحال پروگرام کے حوالے سے وزیر تعمیرات و مواصلات نے اہم تفصیلات شیئر کر دیں
جنگ کے بعد کے متوقع اثرات
30 مئی کو چار روزہ تنازعہ کے بعد ہندوستانی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے آئی این ایس وکرانت کے دورے کے موقع پر پاکستان کو سخت الفاظ میں تنبیہ کی کہ اگر ہندوستانی بحریہ کو حالیہ لڑائی میں استعمال کیا جاتا تو کیا ہوتا۔ اس کے دو دن بعد یکم جون کو پاکستان نیوی نے ایک دو روزہ مشق کا اعلان کیا جس میں "پاکستان کی تمام بڑی بندرگاہوں اور بندرگاہوں پر ذیلی روایتی اور غیر متناسب خطرات کا مقابلہ کرنے" پر توجہ مرکوز کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: نومولود کے انتقال پر خاتون ڈاکٹر پر ہسپتال میں بہیمانہ تشدد، گلا دبا کر مارنے کی کوشش
علامتی طاقت کے مظاہرے
یہ علامتی طاقت کے مظاہرے ہندوستان کے "آپریشن سندور" اور پاکستان کے "آپریشن بنیان مرصوص" کے بعد ہوئے، جو 10 مئی کو ختم ہونے والے چار روزہ تنازعہ کے لیے دونوں ممالک کے کوڈ نام تھے۔ 96 گھنٹے کے تنازعہ کے دوران اگرچہ بحری افواج زیادہ تر غیر فعال رہیں، لیکن انہوں نے ایک دوسرے کی نقل و حرکت پر نظر رکھی اور کارروائی کے لیے تیار تھیں۔ سیٹلائٹ امیجری سے پتہ چلتا ہے کہ آئی این ایس وکرانت پہلگام حملے کے فوراً بعد پاکستان کی طرف بڑھی اور بحیرہ عرب میں چار دن تک تعینات رہی۔ پاکستان نے بھی اپنے بیڑے کو متحرک کیا، جسے 2 مئی کو کراچی میں ایک ترک بحری جہاز کی آمد سے تقویت ملی۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی اخبار کی چیمپئنز ٹرافی فائنل سے متعلق خبر، پی سی بی کا جواب مل گیا
بحری افواج کا ممکنہ کردار
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سنگھ کے بیانات اور پاکستان کی بحری مشقیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ مستقبل کے تنازعہ میں بحری افواج کا کردار بڑھ سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا کردار ہے جس میں ہندوستانی اور پاکستانی بحری افواج بخوبی واقف ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور، کاہنہ میں ملزمان کا راستہ مانگنے پر فیملی پر بہیمانہ تشدد
حکمت عملی میں تبدیلی
سنہ 1971 کی جنگ کے بعد سے ہندوستان اور پاکستان نے مختلف بحری حکمت عملی اپنائی ہے۔ بھارت نے "بلیو واٹر نیوی" بنانے کی کوشش کی ہے جو سمندروں میں طاقت کا مظاہرہ کر سکے۔ ہندوستانی بحریہ نے نہ صرف اپنی بحری اثاثوں میں عددی برتری حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کی ہے بلکہ روس جیسے ممالک کے ساتھ شراکت داری بھی کی ہے، جس نے اسے ایک طاقتور بیڑا تیار کرنے میں مدد دی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چین کے اعتراضات مسترد، امریکا نے تائیوان کو اسلحہ فروخت کرنے کی منظوری دے دی
پاکستان کی بحری حکمت عملی
اس کے برعکس پاکستان نے اپنی زمینی اور فضائی افواج کو ترجیح دی ہے۔ اس کی بحریہ کی ترقی سست رہی ہے، جس کی بنیادی وجہ چین اور ترکیہ کے ساتھ تعاون ہے۔ پاکستان کی بحریہ کے پاس طیارہ بردار جہاز اور تباہ کن جہاز نہیں ہیں، لیکن اس میں 11 فریگیٹس، آٹھ آبدوزیں اور کم از کم 21 گشتی جہاز شامل ہیں۔ پاکستان کے بحری عزائم اور مقاصد ہندوستان سے بہت مختلف ہیں۔ "ہندوستان کا مقصد عالمی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے جب کہ پاکستان کی ایک دفاعی بحریہ ہے جو سمندری مواصلاتی لائنوں کو محفوظ رکھنے اور جارحیت کو روکنے کے لیے ہے۔
آنے والے تنازعات میں بحری کردار
ماہرین کا کہنا ہے کہ سنگھ کے 30 مئی کے ریمارکس مستقبل کے تنازعات میں زیادہ جارحانہ بحری رویے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اگر ایک اور فوجی تنازعہ بڑھتا ہے تو بحری افواج کے فعال طور پر شامل ہونے کا امکان زیادہ ہے۔