بجٹ اور ہماری مظلوم عوام؟

تحریر: محمود صادق
عید کی خوشیاں اور اقتصادی چیلنجز
بڑی عید تو پورے پاکستان نے منا لی اور عید کے فوراً بعد حکومت وقت نے سالانہ اقتصادی رپورٹ جاری کر دی ہے۔ بجٹ بھی اسمبلی نے منظور کر لیا ہے اور وزیر خزانہ نے بجٹ کے بعد صحافیوں کا سامنا کر لیا ہے۔ جناب وزیر موصوف کی ایک بات پر حیرانی اور افسوس ہوا۔ 30 جون 2024 سے لے کر 30 مارچ 2025 تک ہماری خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نما ایک اعشاریہ چھ فیصد تھی۔ پھر آخر پاکستان ایک دم آخری تین ماہ میں چھلانگ لگا کر پتہ نہیں کیسے دو اعشاریہ سات فیصد پر پہنچ گیا ہے۔ یہ سوال جب ایک صحافی نے پوچھا تو ہمارے محترم وزیر خزانہ نے اسے "حکومتی ڈیٹا" قرار دیا اور پتلی گلی سے نکل گئے۔ کیا وہ حکومت نہیں ہیں؟ عام عوام کے لیے میرا یہی مشورہ ہے کہ سنتا جا اور شرماتا جا مگر بولنا مت۔
بجٹ اور عوام کے مسائل
بجٹ کو پڑھ اور سمجھ کر لگتا ہے کہ جنگ اور عید دونوں کی خوشیاں ختم ہو گئی ہیں اور عام عوام کے لیے مصائب اور قربانی والا وقت شروع ہونے لگا ہے۔ بڑی عید پر قربانی تو سنت ہے مگر عوام سے قربانی فرض سمجھ کر مانگی جا رہی ہے۔
پچھلے 50 سالوں سے سنتے آ رہے ہیں کہ ہم ایک زرعی ملک ہیں اور اب تو پانی کے لیے خون تک بہانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ تاہم زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک کے طور پر شدید بحران میں پھنس گیا ہے۔ کپاس کی پیداوار میں 30 فیصد کمی، مکئی میں 15 فیصد اور گندم میں 9 فیصد کمی ہوئی ہے۔ حکومت چاہے نہ مانے مگر زرعی اور صنعتی پیداوار ناک کے بل گر گئی ہے۔ کپاس کی درآمد، جو پہلے 448 ملین ڈالر تھی، اب 1.9 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے، لیکن کپاس کے بیج پر 18 فیصد جی ایس ٹی اور ٹریکٹر پر 14 فیصد جی ایس ٹی قائم ہے۔ زرعی شعبہ صرف دباؤ ہی کا شکار نہیں بلکہ زمین بوس ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں غذا کی سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ جس میں ماحولیاتی تبدیلی بھی اپنا منفی کردار ادا کر رہی ہے۔
معیشت میں بہتری یا دھوکہ?
عظیم معیشت (مائیکرو اکنامکس) میں جو بہتری آئی ہے اور جس کے ڈھول بجا رہے ہیں، اس کی وجہ درآمدی بل میں چھ سے سات ارب ڈالر کی کمی ہے۔ اس کی وجوہات عالمی سطح پر تیل کی قیمت اور کپاس کی قیمت میں کمی ہیں۔ آج تیل 80 یا 60 ڈالر فی بیرل کی عالمی سطح پر موجود ہے۔ اس کامیابی میں حکومت کا کوئی ہاتھ یا کوشش نہیں، تاہم گندم، کپاس، گنے اور مکئی کی پیداوار میں کمی ایک لمحہ فکریہ ہے۔
عوام کی قوت خرید میں کمی
اگر ہم حکومت کی بات مان لیں کہ افراد زر میں کمی ہوئی ہے مگر جناب حکومت، عام آدمی کی قوت خرید کم ہو گئی ہے کیونکہ پچھلے تین سالوں میں ٹیکس اتنے بڑھ گئے ہیں جس سے عوام کی حقیقی آمدنی اور معیار زندگی نیچے آ گیا ہے۔ کاروں، موٹر سائیکل، ٹی وی، فریج اور اے سی وغیرہ کی خریداری میں واضح کمی اس بات کا ثبوت ہے۔ اس سال بھی برآمدی اور صنعتی ترقی نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ اللہ بھلا کرے سمندر پار پاکستانیوں کا ورنہ ہم ایک ملک کے طور پر سڑک پر آ جاتے۔ افسوس یہ ہے کہ اگر ہم ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے گندم، گنا، کپاس اور مکئی پیدا نہیں کر سکتے تو انڈسٹری کیا لگائیں گے؟
ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات
ماحولیاتی تبدیلی اور زمین کے درمیان ایک انمٹ تعلق ہوتا ہے۔ ماحول سے ہمارا ملک عالمی سطح پر متاثر ممالک میں تیسرے نمبر پر ہے اور ہم اس کا ہر عالمی فورم پر نہ صرف اظہار کرتے ہیں بلکہ مدد کی بھیک بھی مانگتے رہتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ "ریل اسٹیٹ گروتھ" بڑھ گئی ہے۔ میں لاہور میں رہتا ہوں اور نظری مشاہدے سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کے دوسرے بڑے شہر میں 50 سے 60 فیصد "ریل اسٹیٹ" کے دفتر پچھلے دو سال میں بند ہو گئے ہیں۔
کاروباری مواقع اور چیلنجز
دوسری طرف ہم نے "ریل اسٹیٹ" میں چھوٹ دی ہے یعنی درخت کاٹو، کالونیاں بناؤ اور 50 سے اوپر کے درجہ حرارت میں زندگی گزارو کیونکہ وزیر داخلہ سے لے کر پنجاب اور وفاق میں بڑے بڑے وزیروں کا ذریعہ معاش اس شعبے سے جڑا ہے۔ باقی زراعت جائے بھاڑ میں۔ بھارت سے تجارت کا بند کرنا ایک اچھا موقع ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوگا کیونکہ ان چیزوں کی پاکستان میں پیداواری لاگت زیادہ ہے اور اس کی بنیادی وجہ بجلی اور گیس کے نرخ ہیں۔ ابھی بھی انڈونیشیا یا ملائشیا کو چھوڑ دیں تو سری لنکا اور بنگلہ دیش میں بھی یہ دونوں چیزیں پاکستان سے سستی ہیں۔
تنخواہوں میں اضافے اور عوامی اثرات
اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہمارے عوامی نمائندوں اور بڑے بڑے اداروں کے سربراہوں کی تنخواہوں میں بجٹ سے پہلے ہی 500 فیصد اضافہ کر دیا گیا تھا اور پھر ہم نے عام عوام کے لیے سات سے دس فیصد تنخواہوں کی مد میں اضافہ کیا ہے۔ دیکھتا جا اور شرماتا جا مگر بولنا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی چاہے وہ آن لائن خریداری ہے یا کیش ان ڈیلیوری، ان تمام سہولتوں پر جو ٹیکس لگایا گیا ہے تو 100 فیصد یہ کمپنیاں اور ادارے عوام پر ہی یہ ٹیکس منتقل کریں گی یعنی اور زیادہ مہنگائی ہوگی اور عام آدمی کی قوت خرید کم اور معیار زندگی مزید نیچے جائے گا。
پیداوار میں کمی اور نوکریوں کا بحران
سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اگر پیداوار کم ہوئی ہے، برآمدات میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے، مہنگائی بھی کم نہیں ہوئی تو ہم نے خرچے کیوں کم کرنے کی بجائے بڑھا دیے ہیں؟ میرے پیارے پاکستان میں 60 فیصد سے اوپر آبادی نوجوانوں کی ہے۔ صرف 2025 میں 30 لاکھ بچے نوکری کے لیے اہل ہوں گے۔ وزیر خزانہ نے نوکریوں سے صاف معذرت کر لی ہے۔ کیا یہ بے حسی ہے، مجبوری ہے یا بے پرواہی? جس ملک میں دو کروڑ 70 لاکھ یعنی 40 فیصد بچے سکول نہیں جا رہے، وہاں ہم ایک طرف مصنوعی ذہانت اور انٹرنیٹ کی باتیں کر رہے ہیں۔
حالات کی بہتری کی امید
درحقیقت نہ ہی ہم نے اٹھارویں ترمیم میں کوئی تبدیلی کی ہے نہ ہی این ایف سی ایوارڈ کو تبدیل کیا ہے، نہ کوئی "پینشن ریفارمز" آئیں ہیں، نہ ہی کوئی پرائیوٹائزیشن کی ہے اور نہ ہی "رائٹ سائزنگ" کی ہے۔ پھر کیسے حالات ٹھیک ہوں گے؟ حقیقت میں سوائے چار دن کی جنگی کامیابی کے ہمارے ہاتھ خالی ہیں۔ کیا یہ حکومت پھر ماضی کی ناکامی کو دہراے گی یا اس دفعہ بہتری ہوگی یہ صرف وقت ہی بتائے گا۔
نوٹ
یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔