بھارتی ارب پتی دبئی، لندن اور نیویارک میں جائیدادیں کیوں خرید رہے ہیں؟

بھارتی ارب پتیوں کی لگژری پراپرٹی میں سرمایہ کاری
نئی دہلی (ڈیلی پاکستان آن لائن) بھارتی ارب پتیوں کے لیے لگژری پراپرٹی اب صرف دولت یا سماجی حیثیت کا نشان نہیں رہی، بلکہ یہ ایک سوچا سمجھا سرمایہ کاری کا ذریعہ بن چکی ہے جو طویل مدتی فوائد فراہم کرتی ہے۔ انڈیا ڈاٹ کام کے مطابق حالیہ برسوں میں بیرونِ ملک لگژری گھروں کی خریداری کا رجحان نمایاں طور پر بڑھا ہے، خاص طور پر دبئی، لندن اور نیویارک جیسے شہروں میں بھارتی شہریوں کی پراپرٹی میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سابق صوبائی وزیر اور پیپلزپارٹی کے سابق ترجمان امجد آفریدی کو قتل کیس میں ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا گیا
بین الاقوامی جائیداد میں سرمایہ کاری کی شرح
پانچ سال قبل تقریباً 10 سے 11 فیصد بھارتی امیر افراد غیر ملکی جائیدادوں میں سرمایہ کاری کر رہے تھے، لیکن اب یہ شرح 22 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ "انڈیا لکژری ریزیڈنشل آؤٹ لک 2025" کے مطابق اب یہ خریداریاں محض رعب یا شو بازی کے لیے نہیں ہو رہیں، بلکہ مالی فائدے اور معیارِ زندگی بہتر بنانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ لکشمی مِتل، آدر پونہ والا، اور روی روئیا جیسے معروف نام بھی اس بڑھتے ہوئے رجحان کا حصہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 2003 سے 5 مئی 2025 تک، دو دہائیوں کے بعد اسکائپ کو بند کردیا گیا
عالمی شناخت اور سرمایہ کاری کے فوائد
انڈیا سوتھبیز انٹرنیشنل ریئلٹی کے ڈائریکٹر آکاش پوری کے مطابق لندن یا نیویارک جیسے عالمی شہروں میں جائیداد کا مالک بننا سرمایہ کار کو عالمی شناخت فراہم کرتا ہے، کیونکہ یہ معاشی اور سماجی حلقوں میں ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک فوج نے بھارت کی کیانی اور منڈل سیکٹر میں بلااشتعال فائرنگ کا جواب کیسے دیا۔۔۔؟ ویڈیو دیکھیں
تین بڑی وجوہات
تین بڑی وجوہات کی بنا پر بھارتی ارب پتی بین الاقوامی ریئل اسٹیٹ میں دلچسپی لے رہے ہیں:
1: جب وہ ڈالر یا پاؤنڈ میں جائیداد خریدتے ہیں تو وہ روپے کی قدر میں کمی سے اپنے سرمایے کو محفوظ رکھتے ہیں۔
2: عالمی شہروں میں جائیدادوں کی قیمتیں عموماً مستحکم رہتی ہیں یا بڑھتی ہیں، کیونکہ یہ شہر دنیا بھر کے سرمایہ کاروں، کاروباری افراد اور باصلاحیت افراد کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
3: لندن اور نیویارک کے لگژری گھروں میں کرایہ دار کے طور پر سفارت کار، بین الاقوامی طلبہ یا کاروباری شخصیات آتی ہیں جو اچھی کرایہ آمدنی کا باعث بنتی ہیں۔ مثال کے طور پر لندن کے مرکزی علاقوں میں سالانہ کرایہ عام طور پر جائیداد کی قیمت کا 3.5 سے 4.5 فیصد ہوتا ہے جو ایک مستحکم آمدنی سمجھی جاتی ہے۔
مناسب اور سٹریٹیجک سرمایہ کاری
آکاش پوری کا کہنا ہے کہ اب بھارتی امیر افراد جائیدادیں محض دکھاوے کے لیے نہیں خرید رہے بلکہ وہ دانشمندانہ اور سٹریٹیجک فیصلے کر رہے ہیں۔ یہ جائیدادیں ان کے سرمایے میں اضافہ، معیارِ زندگی میں بہتری، اور سرمایہ کاری کے مجموعی توازن کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ اسی لیے بین الاقوامی ریئل اسٹیٹ میں بھارتی ارب پتیوں کی دلچسپی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔