ایران کے پاس کیا آپشنز ہیں اور طویل جنگ ہوئی تو کیا ہوگا؟ الجزیرہ کی تہلکہ خیز رپورٹ آگئی

ایران اور اسرائیل کے درمیان تصادم
تہران (ڈیلی پاکستان آن لائن) ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری حالیہ تصادم نے خطے کو غیر معمولی کشیدگی میں مبتلا کر دیا ہے، جہاں ایران اسرائیلی حملوں کا سامنا کرتے ہوئے اپنے ممکنہ فوجی اور سفارتی آپشنز پر غور کر رہا ہے۔ پچھلے تین دنوں میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 240 سے زائد ایرانی شہری جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں ایرانی عسکری قیادت کے کئی اہم ارکان بھی شامل ہیں۔ ایران نے جوابی کارروائی میں اسرائیل پر وہ تباہ کن حملے کیے ہیں جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے۔ ایرانی میزائلوں نے تل ابیب اور حیفہ جیسے بڑے اسرائیلی شہروں کو نشانہ بنایا، جس سے اسرائیل میں غیرمعمولی جانی اور مالی نقصان پہنچا۔ اگرچہ دونوں فریقین کی جانب سے معلومات کی جنگ بھی جاری ہے، تاہم اس تصادم میں ہونے والے حقیقی نقصانات کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نوازشریف مذاکرات کیلئے 9مئی پر معافی مانگنے کا مطالبہ کریں گے: جاوید لطیف
ایران کا میزائل پروگرام
الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران مشرقِ وسطیٰ کا سب سے بڑا میزائل پروگرام رکھتا ہے، جس کے پاس ہزاروں بیلسٹک میزائل موجود ہیں۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران کئی ہفتوں تک اسرائیل پر میزائل حملے جاری رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو اسرائیل کے لیے ایک نیا اور سخت تجربہ ہوگا۔ اسرائیل جو اب تک نسبتاً کمزور عسکری گروہوں کے حملوں کا عادی تھا، اب ایک باقاعدہ ریاست کی جانب سے براہِ راست حملوں کا سامنا کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بحریہ کے جہاز پی این ایس معاون کا افریقی ملک سیشلز کا دورہ، بندرگاہ وکٹوریہ آمد پر پرتپاک استقبال
ایرانی میزائلوں کی طاقت
ایران نے اپنے جدید میزائلوں کی طاقت بھی اس جنگ میں پہلی مرتبہ ظاہر کی ہے۔ مثلاً "حاج قاسم" میزائل جو پہلی بار اتوار کو استعمال ہوا، اسرائیلی دفاعی نظام کو چکمہ دینے میں کامیاب رہا۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے بھی اعتراف کیا کہ یہ میزائل پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور اور تیز رفتار تھے۔ اگرچہ ایران کے پاس ان جدید میزائلوں کی تعداد محدود ہے، تاہم اس کے پاس موجود روایتی میزائل اور ہزاروں ڈرونز کے باعث وہ مختصر مدت میں اسرائیل کو شدید نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ، چین کی تیاری کیسی ہے؟ امریکی میڈیا کی تہلکہ خیز رپورٹ
امریکی اڈوں پر حملے کے نتائج
ایران کے لیے امریکی اڈوں پر حملہ ایک انتہائی خطرناک راستہ ہوگا، جسے ایرانی قیادت، بالخصوص سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای ہر صورت میں ٹالنا چاہیں گے۔ کیونکہ ایسا اقدام امریکہ کو اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف بھرپور جنگ چھیڑنے کا بہانہ دے سکتا ہے، جس سے ایران کے جوہری پروگرام سمیت اس کے دیگر اہم اثاثے شدید خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: طلاق کے بعد زندگی سکون میں آگئی ہے، بریڈ پٹ
خلیجی ممالک کے موقف
ایران کو یہ بھی ادراک ہے کہ خلیجی ممالک جیسے کویت، قطر، سعودی عرب اور ترکیہ جہاں امریکی اڈے واقع ہیں، ایران کے کھلے دشمن نہیں ہیں۔ ان ممالک کو کسی تنازع میں گھسیٹنے سے نہ صرف ایران کے لیے سفارتی راستے بند ہو سکتے ہیں بلکہ علاقائی تنہائی بھی پیدا ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت کا طالبات کے لیے وظیفہ کا اعلان
آبنائے ہرمز کی بندش
ایران کے پاس ایک اور بڑا آپشن آبنائے ہرمز کی بندش ہے، جو اس کے لیے ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر ایران یہ راستہ بند کر دیتا ہے تو عالمی منڈی میں تیل کی رسد بری طرح متاثر ہوگی اور قیمتیں 100 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر سکتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں صرف کشیدگی کے باعث تیل کی قیمتیں عارضی طور پر 78 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: ننکانہ میں بھی بھارتی ڈرون گرا دیاگیا
جنگ بندی کے امکانات
تاہم ایران کو یہ بھی معلوم ہے کہ جنگ کا طویل ہونا اس کی معیشت، اندرونی استحکام اور سیاسی صورتحال کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ ایران کی جانب سے یہ اشارے دیے جا رہے ہیں کہ اگر اسرائیل حملے روک دے تو وہ بھی جنگ بندی پر آمادہ ہے اور امریکہ سے جوہری مذاکرات بحال کرنے کو تیار ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اتوار کو بیان دیا کہ "اگر اسرائیلی حملے بند ہو جائیں تو ہم فطری طور پر اس کا جواب بھی روک دیں گے۔"
سفارتی راستے کی اہمیت
اگر کوئی معاہدہ ممکن ہوا تو غالب امکان یہی ہے کہ وہ امریکہ کی ثالثی سے ہی ہوگا۔ ایران کے لیے یہی سب سے محفوظ راستہ ہوگا کہ وہ اسرائیل کو روکنے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کرے، کیونکہ فوجی محاذ پر اگرچہ ایران نے اپنی طاقت ثابت کی ہے، لیکن طویل جنگ اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہو سکتی ہے۔