بوشہر ایٹمی پاور پلانٹ پر اسرائیلی حملہ چرنوبل جیسے سانحے کا سبب بن سکتا ہے، روس

ایران کے ایٹمی پلانٹ پر اسرائیلی حملے کا خطرہ
ماسکو (ڈیلی پاکستان آن لائن) روس کے جوہری توانائی کے ادارے کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ ایران کے بوشہر ایٹمی پاور پلانٹ پر اسرائیلی حملہ چرنوبل جیسے سانحے کا سبب بن سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی سفارتی عملہ واہگہ کے راستے بھارت روانہ
اسرائیلی حملے کی تفصیلات
ڈان نے عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ ایک اسرائیلی فوجی ترجمان نے کہا کہ اسرائیل نے اس مقام پر حملہ کیا ہے۔ بعد میں ایک اسرائیلی فوجی اہلکار نے اس بیان کو ’غلطی‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ اس بات کی نہ تو تصدیق کر سکتے ہیں اور نہ تردید کہ خلیج کے ساحل پر واقع بوشہر کے مقام کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عاصم منیر فیلڈ مارشل کے عہدے کے حقدار تھے، نواز شریف
بوشہر ایٹمی پاور پلانٹ کی حیثیت
بوشہر ایران کا واحد فعال نیوکلیئر پاور پلانٹ ہے، جو روس نے تعمیر کیا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے جمعرات کی صبح صحافیوں کو بتایا کہ اسرائیل نے روس کو یقین دلایا ہے کہ ماسکو کے کارکن، جو بوشہر کے مقام پر مزید جوہری سہولیات تعمیر کر رہے ہیں، محفوظ رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: تھائی لینڈ نے کمبوڈیا کی سرحد سے متصل 8 اضلاع میں مارشل لا نافذ کر دیا
خطرات اور تشویش
روس کے سرکاری جوہری ادارے ’روس ایٹوم‘ کے سربراہ الیگزی لیخاچیف نے خبردار کیا کہ اس پلانٹ کے اردگرد صورتحال خطرے سے خالی نہیں۔ انہوں نے سرکاری خبر رساں ایجنسی آر آئی اے کے حوالے سے کہا کہ اگر فعال پاور یونٹ پر حملہ کیا گیا، تو یہ چرنوبل جیسے سانحے کے مترادف ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: جب بیوی زیادہ کمانے لگے تو مرد اداس کیوں ہوجاتے ہیں؟
ہماری سیکیورٹی تشویشات
الیگزی لیخاچیف 1986 میں دنیا کے بدترین جوہری حادثے کا حوالہ دے رہے تھے، جب سوویت یوکرین کے چرنوبل میں ایک ری ایکٹر پھٹ گیا تھا، جس سے بدترین تباہی پھیلی تھی اور اس کے اثرات چرنوبل کے مقام پر آج بھی برقرار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روس نے اپنے کچھ ماہرین کو بوشہر سے نکال لیا ہے، لیکن اہم عملہ اب بھی وہاں موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افضل گرو سے پہلگام تک بھارت کا ہر الزام بے نقاب ہوا، آج بھی ثبوت دینے سے قاصر ہے: عظمیٰ بخاری
روسی وزارت خارجہ کا بیان
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے کہا کہ پرامن نیوکلیئر تنصیبات پر اسرائیلی حملے ناقابل قبول اور غیرقانونی ہیں۔ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ہمیں خاص طور پر بوشہر نیوکلیئر پاور پلانٹ کی سیکیورٹی پر تشویش ہے، جہاں روسی ماہرین کام کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چیمپئنز ٹرافی، بھارت کے انکار نے ٹورنامنٹ کے انعقاد کو خطرے میں ڈال دیا
امریکی مداخلت سے گریز کی ضرورت
انہوں نے مزید کہا کہ ہم واشنگٹن کو خاص طور پر خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ اس صورتحال میں فوجی مداخلت سے گریز کرے، کیونکہ یہ ایک انتہائی خطرناک قدم ہوگا جس کے واقعی غیر متوقع اور منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف سے مذاکرات کی تیاری، منی بجٹ کیلئے 7 تجاویزموجود
ایک مبہم مستقبل
یہ تنبیہ ماسکو کی طرف سے بدھ کے روز جاری کی گئی ابتدائی وارننگ کی توثیق تھی۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے جمعرات کی صبح اپنے تبصروں میں اس سوال پر دفاعی مؤقف اختیار کیا کہ ماسکو تہران کی کس حد تک مدد کرے گا، انہوں نے کہا کہ ایران نے عسکری مدد کی درخواست نہیں کی، تعلقات مضبوط ہیں، اور بوشہر میں روسی ورکرز کی مسلسل موجودگی ایران کے لیے روس کی حمایت کو ظاہر کرتی ہے۔
روس، ایران اور اسرائیل کے تعلقات
تاہم پیوٹن نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی اہمیت پر بھی زور دیا، اگرچہ بعد میں انہوں نے چینی صدر شی جن پنگ سے فون کال میں اسرائیل کے رویے کی مذمت کی۔ خیال رہے کہ روس نے جنوری میں ایران کے ساتھ ایک اسٹریٹجک شراکت داری پر دستخط کیے تھے، اور اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات رکھتا ہے، اگرچہ روس کے یوکرین پر حملے کی وجہ سے ان تعلقات میں کشیدگی آئی ہے۔ واضح رہے کہ روس کی جانب سے ایران اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کی پیشکش تاحال قبول نہیں کی گئی۔