مرد آہن فیلڈ مارشل سید عاصم منیر

عسکری قیادت اور قومی سلامتی
پاکستان کی عسکری قیادت ہمیشہ سے قومی سلامتی، وحدت اور آئینی استحکام کی علامت رہی ہے۔ جب بھی ملک کو اندرونی یا بیرونی خطرات کا سامنا ہوا، پاک فوج نے اپنے وقار، نظم و ضبط اور حب الوطنی سے ملک کا دفاع یقینی بنایا۔ ان اصولوں کی آج کی واضح مثال موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر ہیں، جنہیں بجا طور پر "مردِ آہن" کہا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ اجلاس: افواجِ پاکستان کو پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور بہادری پر خراج تحسین
جنرل عاصم منیر کی تعیناتی
جنرل عاصم منیر 29 نومبر 2022 کو پاکستان کے 17ویں آرمی چیف کے طور پر تعینات ہوئے۔ وہ ایک منفرد پس منظر کے حامل سپہ سالار ہیں — حافظِ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پہلے ایسے سربراہ ہیں جنہوں نے نہ صرف ملٹری انٹیلی جنس بلکہ انٹر سروسز انٹیلیجنس (ISI) کی بھی قیادت کی۔ ان دونوں حساس اداروں کی قیادت ایک ایسا تجربہ ہے جو انہیں دیگر جنرلز سے ممتاز بناتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کس لئے ظلم ہے دہشت ہے یہاں پر یارو۔۔۔
عسکری قیادت کے اصول
ان کی عسکری قیادت کا آغاز اصولوں، راست گوئی اور ادارہ جاتی نظم و ضبط سے ہوا۔ بطور ڈی جی ایم آئی اور ڈی جی آئی ایس آئی، ان کا کردار قومی سلامتی کو لاحق خطرات کے بروقت تجزیے اور ان کے تدارک میں کلیدی رہا۔ ان کی پیشہ ورانہ زندگی شفاف، بے داغ اور مثالی کہی جا سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایسا حوصلہ کہیں اور نہیں دیکھا؛ دورانِ جنگ پاکستانیوں کے رویے پر امریکی یوٹیوبر حیران
آرمی چیف کے طور پر عزم
بطور آرمی چیف، جنرل عاصم منیر نے پاک فوج کو سیاست سے دور اور آئینی کردار تک محدود رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کھل کر یہ پیغام دیا کہ فوج کا کام ریاستی دفاع اور عوام کی خدمت ہے، نہ کہ سیاسی میدان میں مداخلت۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی قیادت میں ادارے کے اندر شفافیت، غیر جانبداری اور پیشہ ورانہ نظم و نسق کو فروغ ملا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان تحریک انصاف کا پنجاب کے 8 شہروں میں احتجاج کا منصوبہ
جنرل عاصم منیر کا وژن
ان کی گفتار میں ٹھہراؤ، طرزِ عمل میں وقار، اور فیصلوں میں غیر متزلزل اعتماد نظر آتا ہے۔ مشکل ترین حالات میں بھی وہ پُرعزم اور پُرامن رہ کر ملک و قوم کے لیے فیصلے کرتے ہیں۔ یہی اوصاف انہیں "مردِ آہن" کا لقب دلاتے ہیں — ایسا مردِ آہن جو نہ دباؤ میں آتا ہے، نہ جھکتا ہے اور نہ اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بشریٰ بی بی نے تحریک انصاف میں اختلافات کا نوٹس لے لیا، اہم ہدایات جاری
قومی وحدت اور آئینی بالادستی
جنرل عاصم منیر کا وژن صرف عسکری نہیں بلکہ قومی سطح پر واضح ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی صرف بارڈر پر دشمن کو روکنے سے ممکن نہیں، بلکہ اندرونی طور پر معاشی خودمختاری، عوامی اتحاد، اور نظریاتی استحکام بھی اتنے ہی ضروری ہیں۔ یہی سوچ انہیں ایک دور اندیش اور ہمہ جہت قائد بناتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی اے ایف مسرور بیس پر حملے کی بڑی سازش ناکام بنادی گئی
عالمی سیاسی منظرنامہ
عالمی سیاسی منظرنامے میں ایک غیر معمولی لمحہ ثابت ہوئی۔ دونوں شخصیات نہ صرف اپنے اپنے ممالک کی طاقتور نمائندگی کرتی ہیں بلکہ ان کے درمیان ہونے والی گفتگو، کئی سطحوں پر معنی خیز اور مستقبل کی عالمی صف بندیوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فائز عیسیٰ کے خلاف لندن میں پی ٹی آئی کا احتجاج: ‘حملہ آوروں کے شناختی کارڈ بلاک اور پاسپورٹ منسوخ کرنے کا اعلان’
ملاقات کے اثرات
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، جو پاکستان کی عسکری قیادت کی علامت ہیں، نے جنوبی ایشیا میں امن کے قیام، افغانستان کی صورتحال، اور بھارت کے ساتھ کشیدگی جیسے معاملات پر پاکستان کے مؤقف سے آگاہ کیا۔ دوسری جانب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی مفادات اور ممکنہ تعاون کے پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ یہ ملاقات بظاہر رسمی لگ سکتی ہے، مگر اس کے اثرات اس سے کہیں گہرے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسی، بھارت نے پاکستان میں سکھوں کے داخلے پر پابندی لگا دی
سفارتی کوششیں اور کردار
محسن نقوی اور امریکہ میں مقیم پاکستانی نژاد رہنما ساجد تارڑ نے حالیہ دنوں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کے انتظام و اہتمام میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ پاکستان کی بین الاقوامی سفارت کاری کے ایک نئے اور مؤثر رخ کی عکاسی کرتا ہے۔ ان دونوں شخصیات کی کاوشیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاستی سطح پر روابط کو مضبوط بنانے میں صرف روایتی سفارتی ذرائع ہی نہیں، بلکہ بااثر سیاسی شخصیات اور بیرون ملک پاکستانی رہنما بھی کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لیسکو میں بہترین کارکردگی دکھانے والے افسران کے اعزاز میں تقریب، اہم شخصیات کی شرکت اور خطاب
نئی راہیں
یہ ملاقات نہ صرف پاکستان اور امریکہ کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے، بلکہ اس سے یہ پیغام بھی گیا ہے کہ پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت عالمی سطح پر متحرک ہے اور اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روس اور پاکستان کے درمیان سٹریٹجک شراکت داری: بھارت کو ایک اور سفارتی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ گیا
عمران خان کی ناکامی
عمران خان اینڈ کمپنی کی طرف سے کی جانے والی کوششیں، امریکہ میں احتجاج، لابنگ فرموں کی خدمات اور کانگریس ارکان سے ملاقاتوں کا جو شور تھا، وہ وقت کے ساتھ نہ صرف مدھم پڑ گیا بلکہ بالآخر ناکامی میں بدل گیا۔ ان کی تمام سیاسی سرگرمیاں اور سفارتی کوششیں، جن کا مقصد بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت کو دباؤ میں لانا تھا، عملاً کوئی خاص اثر نہ ڈال سکیں۔
اختتامیہ
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔