ایران کے ایٹمی پلانٹس اور متعلقہ تنصیبات کتنی اور کہاں ہیں؟

ایران کا جوہری پروگرام

تہران(ڈیلی پاکستان آن لائن) ایران کا جوہری پروگرام 1950 کی دہائی میں شروع ہوا، 1990 کی دہائی میں عالمی برادری کو شک ہوا کہ ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکہ کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بھی بات چیت تک لانا پڑے تو یہ دنیا کے مفاد میں ہوگا، بلاول

آئی اے ای اے کی تحقیقات

نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے 2003 میں پہلا معائنہ کیا جس میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کا انکشاف ہوا۔ 2006 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اور جرمنی نے مذاکرات کا آغاز کیا۔

یہ بھی پڑھیں: جمہوریہ مالٹا کے اعزازی قونصل جنرل حسن محمود زیدی کا دورہ سندس فاؤنڈیشن، زیرعلاج بچوں میں تحائف تقسیم

جے سی پی او اے معاہدہ

2015 میں جامع معاہدہ جے سی پی او اے طے پایا جس کے تحت ایران نے یورینیم کی افزودگی صرف 3.67 فیصد تک محدود رکھنے، افزودہ یورینیم کا ذخیرہ کم کرنے اور آئی اے ای اے کو اپنی جوہری تنصیبات کی مکمل نگرانی کی اجازت دی۔

یہ بھی پڑھیں: رواں ماہ کے لیے ایل این جی سستی کر دی گئی

یورینیم کی افزائش میں اضافہ

آئی اے ای اے کے مطابق 2015 تک ایران نے شفافیت دکھائی۔ پھر جب 2018 میں امریکہ معاہدے سے نکل گیا تو ایران نے آہستہ آہستہ یورینیم افزادگی بڑھانا شروع کر دی اور 2021 کے بعد 60 فیصد تک پہنچا دی۔

یہ بھی پڑھیں: فیس بک مارکیٹ پلیس پر انسانی ہڈیوں کی خریدو فروخت پر خاتون گرفتار، کھوپڑی کتنے میں بیچ رہی تھی؟

مذاکرات کا عمل

آئی اے ای اے نے 2021 تا 2025 کے دوران شکوک ظاہر کرتے ہوئے عدم تعاون کی شکایات کیں۔ 2025 کے اوائل میں ایک نیا سفارتی عمل شروع ہوا تاکہ معاہدے کی بحالی ممکن بنائی جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں: جھنگ میں شہریوں کا پاک فضائیہ کو خراجِ تحسین

فوجی حملے اور جوہری سائنس دانوں کی ہلاکت

اس حوالے سے مذاکرات کے 5 دور ہو چکے تھے اور چھٹا دور 13 سے 15 جون کو عمان میں شیڈول تھا۔ 12 جون 2025 کو آئی اے ای اے کی رپورٹ سامنے آئی کہ ایران جوہری بریک آؤٹ پوائنٹ کے قریب ہے۔ اس کے اگلے روز ہی 13 جون کو اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا جس میں ایران کے 6 جوہری سائنس دان، ایرانی آرمی چیف، پاسداران انقلاب کے سربراہ اور ایئرو اسپیس کے سربراہ شہید ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی سمیت ملک بھر کیلئے بجلی 1 روپے 71 پیسے سستی

ایرانی ایٹمی مراکز

بین الاقوامی نیوز ایجنسی کے مطابق اس کے بعد بھی مزید 8 ایٹمی سائنس دان مختلف حملوں میں مارے جا چکے ہیں جب کہ 2 جنرل، پاسداران انقلاب کے انٹیل جنس سربراہ اور ڈپٹی کمانڈر بھی شہید ہو گئے ہیں۔ اس سے پہلے 2009 میں ایران کے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر مسعود علی محمدی، 2010 میں ڈاکٹر مجید شہریاری، 2011 میں داریوش رضائی اور 2020 میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے ماسٹر مائنڈ محسن فخری زادہ کو بھی مارا جا چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ویو نے اپنا Y29 لانچ کردیا

ایٹمی مراکز کا جغرافیہ

ایران کے مختلف شہروں میں 6 بڑے ایٹمی مراکز ہیں جن میں نطنز اور فردو یورینیم کی افزودگی کرتے ہیں۔ اراک ہیوی واٹر ری ایکٹر تھا جس پر اسرائیل نے 19 جون کو حملہ کیا۔ بوشہر ایران کا واحد نیوکلیئر پاور پلانٹ ہے۔ اصفہان میں یورینیم کنورژن سینٹر ہے لشکر آباد میں ایٹمی تجرباتی سینٹر ہے۔ ایرانی ایٹمی تنصیبات پر اب تک کئی سائبر یا دیگر حملے ہو چکے ہیں۔

سائبریحملے اور تخریب کاری

2010 میں سٹکس نیٹ وائرس نے نطنز کے سینٹری فیوجز کو تباہ کیا۔ 2020 میں نطنز میں دھماکا ہوا جسے تہران نے تخریب کاری قرار دیا۔ 2021 میں ایک اور حملہ ہوا جس سے بجلی کا نظام درہم برہم ہوا۔ ایران نے ان حملوں کے اسرائیل پر الزامات لگائے۔ اسرائیل نے 13 جون سے اب تک ایران کے 5 ایٹمی پانٹس یا تنصیبات نطنز، اصفہان، ارک، خنداب اور فردو کو پھر سے نشانہ بنایا ہے۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...