آبنائے ہرمز کی اہمیت ہے اور عالمی معیشت پر اس کی ممکنہ بندش سے اثرات

آبنائے ہرمز کا تعارف
تہران(ڈیلی پاکستان آن لائن) آبنائے ہرمز سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور ایران سے یومیہ تقریباً 21 ملین بیرل تیل دیگر ممالک کو پہنچایا جاتا ہے، جن میں پاکستان، چین، جاپان، جنوبی کوریا، یورپ، شمالی امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: علی امین گنڈاپور کی گفتگو خیبرپختونخوا ہاؤس روانگی سے پہلے منظر عام پر آئی
آبنائے ہرمز کی اہمیت
آبنائے ہرمز مشرق وسطیٰ کے خام تیل پیدا کرنے والے ممالک کو ایشیا، یورپ، شمالی امریکا اور دیگر دنیا سے جوڑتی ہے۔ اس سمندری پٹی کے ایک طرف امریکا کے اتحادی عرب ممالک ہیں جبکہ دوسری طرف ایران واقع ہے۔ اس آبی گزرگاہ سے دنیا کے 20 فیصد تیل اور 30 فیصد گیس کی ترسیل ہوتی ہے، جہاں سے روزانہ تقریباً 90 اور سال بھر میں 33 ہزار بحری جہاز گزرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اکشے کمار نے ساتھی اداکار پریش راول پر 25 کروڑ روپے کا ہرجانے کا مقدمہ دائر کر دیا
شپنگ لینز اور عالمی تیل کی رسد
33 کلو میٹر چوڑی اس سمندری پٹی سے دو شپنگ لینز گزرتی ہیں، ہر لین کی چوڑائی تین کلو میٹر ہے جہاں سے بڑے آئل ٹینکرز گزرتے ہیں۔ مجموعی عالمی تیل کی رسد کا پانچواں حصہ یعنی 20 فیصد اسی راستے سے جاتا ہے۔ قطر، جو دنیا میں سب سے زیادہ ایل این جی برآمد کرنے والا ملک ہے، اپنی برآمدات کے لیے بھی اسی گزرگاہ پر انحصار کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Woman Attacked with Acid and Assaulted After Refusing Friendship; Suspect Arrested
مطلوبہ تیل کی مقدار
آبنائے ہرمز کے ایک طرف خلیج فارس اور دوسری طرف خلیج عمان ہے، خلیج فارس میں 8 ممالک ہیں جن میں ایران، عراق، کویت، سعودی عرب، بحرین، قطر، یو اے ای اور عمان شامل ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین اپنی معیشت کی روانی کے لیے خلیج سے اپنی ضرورت کا آدھا تیل منگواتا ہے، جبکہ جاپان یہاں سے 95 فیصد اور جنوبی کوریا 71 فیصد تیل اسی راستے سے درآمد کرتے ہیں۔
جغرافیائی تناؤ اور ممکنہ اثرات
عالمی ماہرین کے مطابق اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ اور امریکی حملوں کی صورت میں ایران آبنائے ہرمز کو ایک ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کرے گا۔ ایران ممکنہ طور پر بارودی سرنگیں بچھانے کے علاوہ آبدوزیں، اینٹی شپ میزائل اور جنگی کشتیاں تعینات کر سکتا ہے، جس کے نتیجے میں تیل کا بحران پیدا ہو سکتا ہے اور قیمتیں 130 ڈالر فی بیرل تک بڑھ سکتی ہیں۔ دفاعی ماہرین کے مطابق یہ گزرگاہ نہ صرف ایران کے لیے ایک چوک پوائنٹ ہے بلکہ دنیا کی لائف لائن بھی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس آبی گزرگاہ کی بندش کے نتائج ایران کے لیے خوفناک ہوں گے۔