امریکی حملوں کے باوجود ایران کی ایٹم بم بنانیکی صلاحیت ختم نہیں ہوئی: عالمی تجزیہ کار

ایران کی ایٹمی صلاحیت پر تجزیہ
و ا شنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) عالمی تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ امریکہ کے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملوں کے باوجود بھی ایران کی ایٹم بم بنانے کی صلاحیت ختم نہیں ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سیاسی انتشار کو ختم کئے بغیر ملک آگے نہیں بڑھے گا ،شاہد خاقان
حملے کا اثر
نجی ٹی وی جیو نیوز نے عالمی تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا کہ اگرچہ امریکی حملوں سے ایران کا یورینیئم افزودہ کرنے کا عمل متاثر ہوا ہے، مگر اس کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی سمیت سندھ میں سی این جی بندش کا اعلان
پینٹاگون کی معلومات
سکائی نیوز کے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ایڈیٹر ٹام کلارک کے مطابق، پینٹاگون کا کہنا ہے کہ ایران کی 3 بڑی ایٹمی تنصیبات پر 125 جنگی طیاروں، بحری جہازوں اور آبدوزوں نے حملہ کیا۔ تاریخ میں پہلی بار B-2 بمبار طیارے اتنی بڑی تعداد میں استعمال کیے گئے، جنہوں نے نطنز اور فردو کے جوہری پلانٹس پر 14 عدد GBU-57 “بنکر بسٹر” بم گرائے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیرِ اطلاعات اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی کچھ دیر بعد بریفنگ
فردو کمپلیکس کی حالت
پینٹاگون کے مطابق فردو کمپلیکس، جو پہاڑ کے اندر 80 سے 90 میٹر تک کی گہرائی میں واقع ہے، اب تک اسرائیلی حملوں سے محفوظ ہے۔ لیکن امریکی حملے کے بعد سیٹیلائٹ تصاویر میں پہاڑ میں 3 مقامات پر بڑے شگاف دیکھے گئے ہیں۔ اس حوالے سے ایران کا کہنا ہے یہ تو بس بالائی سطح ہے، اندر سب محفوظ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں سموگ کے نئے سپیل کا خطرہ، ریڈ الرٹ جاری
حملے کا مقصد
امریکی حملوں کا مقصد زیر زمین ایران کی ایٹمی تنصیبات کو ناکارہ بنانا تھا تاکہ ایران یورینیئم کو اس سطح تک افزودہ نہ کر سکے جسے جوہری ہتھیار میں استعمال کیا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: خضدار واقعہ کی ذمہ دار فتنہ الہندوستان ہے، بھارت کی ریاستی دہشتگردی کی پالیسی 20 سال سے جاری ہے: ڈی جی آئی ایس پی آر
تجزیہ کاروں کی رائے
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صرف تنصیبات کو نقصان پہنچانے سے ایران کی جوہری بم بنانے کی صلاحیت ختم نہیں ہوگی۔ ایران کے انتہائی معیاری یورینیئم افزودگی کے نظام، دیگر بارودی سسٹم اور پیچیدہ ٹیکنالوجی کے خاتمے کے بغیر یہ سب خواب و خیال ہی رہے گا۔
تحقیقات کی ضرورت
ماہرین نے کہا کہ امریکہ کے مبینہ تباہ کُن حملوں کے حقیقی اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے ابھی مزید وقت درکار ہے۔