انہوں نے چٹھی میرے سامنے پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دی، میں ان کا شکریہ ادا کرکے واپس آیا اور شکوہ کیا”استاد آپ نے حماقت کروا دی“

تحریر کا تعارف
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 207
یہ بھی پڑھیں: ایک من سے زیادہ وزنی دنیا کا سب سے بڑا مگرمچھ مرگیا
زبان کی اہمیت
یاد رکھو افسر سے زبانی چاہے جیسی بات کر لو کہ ایسی کہی بات کا ثبوت نہیں ہوتا لیکن جب لکھ دیا تو یہ ثبوت بن جاتا ہے۔ بیٹا! میں تمھاری حماقت معاف کرتا ہوں۔ جیپ چاہیے ہو تو سرکاری کام کے لئے لے سکتے ہو۔ ان انسٹریکٹرز کو تو میں قریب بھی پھڑکنے نہ دوں۔ تم نیاز والے کیس میں سولیسٹر سے ملو اور جیپ لے جاؤ۔
یہ بھی پڑھیں: عدلیہ کی آزادی ہمارے ملک میں ہر ایک کا پسندیدہ موضوع ہے، کوئی عدالت جب تک آئین اور قانون کے راستے پر چلتی رہے کوئی راستہ نہیں روک سکتا
چٹھی کی اہمیت
“انہوں نے میری لکھی چٹھی میرے سامنے پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دی تھی۔ میں ان کا شکریہ ادا کرکے واپس آیا اور جاتے ہوئے تارڑ صاحب سے ملا اور ان سے شکوہ کیا؛”کہ استاد ہونے کے ناطے آپ نے درست سبق نہیں دیا اور مجھ سے حماقت کروا دی۔“
یہ بھی پڑھیں: 14 دوستوں کو قتل کرنے والی لڑکی کو سخت سزا سنا دی گئی، تہلکہ خیز انکشافات
جیپ کی پہلی ڈرائیو
میں سولیسٹر سے ملنے اکیڈمی کے ڈرائیور راجہ مناف کے ساتھ لاہور روانہ ہوا۔ اس نے مجھے جیپ میرے حوالے کر دی۔ میں جیپ کی بریک بھی کار کی طرح ہی لگاتا تھا۔ اس نے مجھے بتایا؛”سر! جیپ کی بریک ذرا دور سے لگانی ہے کار میں اور جیپ میں یہی فرق ہے۔“
یہ سبق اور جیپ کی پہلی ڈرائیو یادگار تھی۔ میرا جیپ کا شوق اور پختہ ہو گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی سپریم کورٹ نے اپنی فوج کی کرنل صوفیہ کو دہشت گردوں کی بہن کہنے والے وزیر کی معافی مسترد کردی
کمیونٹی سینٹرز کا قصہ
ہر بڑے گاؤں میں ایک "دارہ" (community centre) ہوتا تھا۔ جہاں گاؤں والے مل بیٹھتے، اپنے مسائل پر بات کرتے۔ غمی خوشی کے موقع پر بھی گاؤں والے یہیں اکٹھے ہوتے۔ حکومت نے ان داروں کی renovation کے لئے 1985ء میں گرانٹ جاری کی تھی۔
تزئین و آرائش تو ہوئی مگر بہت سی جگہوں پر وہاں کے منتخب ایم پی ایز نے اپنے ڈیروں پر ہی سرکاری پیسے استعمال کر لیا اور گاؤں کے اصل سنٹرز ویسے کے ویسے ہی رہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی سی بی کی جانب سے آئی سی سی کو لکھے گئے خط کے مندرجات سامنے آگئے
سیاسی اثرورسوخ
1989ء میں غالباً ان سنٹرز کو با اثر افراد سے واپس لینے کی مہم کا آغاز ہوا لیکن افسوس یہ مہم بھی سیاست کا ہی شکار ہوئی۔
جہاں منتخب نمائندوں کا کردار ایسا ہو وہاں اچھائی کی توقع سوالیہ نشان ہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تعلیم عام کرنے کا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ عوام میں سیاسی شعور، بنیادی شہری و جمہوری حقوق کی شناخت پیدا ہو گی،غلط اور صحیح میں تمیز کرنے میں آسانی ہو گی
محمد اسلم کائرہ کا کردار
1990ء کے انتخابات میں محمد اسلم کائرہ جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر لالہ موسیٰ سے ایم پی اے منتخب ہوئے۔ انہوں نے ایک گاؤں کے لئے 50 ہزار کی گرانٹ دی۔
ایم پی اے منتخب ہو کر انہوں نے اسی گاؤں کے لئے متعلقہ ایم این اے نے بھی اسی سکیم کے لئے 1 لاکھ روپے کی گرانٹ دی۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔