کشمیر جنگ 1948ء، رن آف کچھ جھڑپ اور پاک، بھارت جنگ 1965ء تینوں جنگوں میں پاکستان کا پلڑا بھاری رہا، 71ء میں ایثار کی ضرورت تھی۔

مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 76
بھارت کی کوششیں
اس سے پہلے 1965964ء میں بھارت نے رن آف کچھ سیکٹر میں مزید علاقہ ہتھیانے کی کوشش کی تھی جسے پاکستان کی افواج نے بھارت کے دانت کھٹے کر کے ناکام بنادیا۔ بھارت نے ایک بار پھر عالمی اداروں اور برطانیہ سے رجوع کیا اور اْن سے مداخلت کی اپیل کی۔
برطانوی مداخلت
بھارت کی مدد کی اپیل پر برطانوی وزیراعظم ہیرلڈ ولسن نے لبیک کہتے ہوئے دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ جنگ پھیلنے کے بجائے کسی فارمولے پر متفق ہو جائیں۔ اْن کے مشورے پر دونوں ممالک نے ایک ٹربیونل کے قیام پر اتفاق کر لیا۔ دونوں ممالک مان گئے کہ علاقائی حدود کے بارے میں یہ ٹربیونل جو بھی فیصلہ کرے گا وہ دونوں ممالک کو تسلیم ہو گا۔
رن آف کچھ کی جنگ
ٹربیونل نے 910 کلومیٹر کا علاقہ پاکستان کو دیدیا۔ پاکستان یہ فیصلہ مان گیا مگر بھارت حسب سابق شورکرتا رہا۔ اس طرح رن آف کچھ کی جنگ میں پاکستان کا پلڑا بھاری رہا اور ہم بھارت کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔
پاکستان کی جنگیں
کشمیر جنگ 1948ء، رن آف کچھ جھڑپ اور پاک، بھارت جنگ 1965ء، تینوں جنگوں میں پاکستان کا پلڑا بھاری رہا۔ 1971ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں بھارت کا پلّہ بھاری رہا۔
مشرقی پاکستان کی صورت حال
وہ یہاں پاکستان کے مغربی حصہ میں حکمران اسی صورت میں بن سکتے تھے کہ مشرقی پاکستان ہاتھ سے چلا جائے۔ مغربی پاکستان سے تقریباً ڈیڑھ ہزار میل کے فاصلہ پر مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن اور جنگ کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ہمارے بنگالی بھائیوں نے 1970ء کے قومی انتخابات میں قطعی اکثریت حاصل کر لی تھی لہٰذا آرمی ایکشن کا راستہ اپنانے کی بجائے اقتدار اعلیٰ پاکستان عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمان کے حوالے کئے جانا ایک جمہوری تقاضا تھا۔
سیاسی دھوکہ دہی
لیکن مذکورہ حکمرانوں نے اپنے ذاتی مفاد اور اقتدار کی ہوس میں پاکستانی افواج کو ہزیمت سے دوچار کرنے کے لئے مشرقی پاکستان میں اپنے پاکستانیوں کے خلاف ملٹری ایکشن کیا۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو سٹیٹس مین (Statesman) ہوتے تو وہ شیخ مجیب الرحمن کے اکثریتی مینڈیٹ کو تسلیم کرتے۔
ملکی یکجہتی کی ضرورت
وہ ملک بچانے کے لئے ایثار کا مظاہرہ کرتے اور خود اپنے لئے لیڈر آف دی اپوزیشن کا رول اختیار کرتے تو پاکستان کبھی دولخت نہ ہوتا۔ اس طرح پاکستان کو توڑنے میں خودغرضانہ سیاست، ہوس اقتدار کے باعث، برابر کے حصہ دار ہیں۔
عوام کی خدمات
1965ء کی جنگ کے دنوں میں جب ہماری افواج میدان جنگ میں داد شجاعت دے رہی تھیں تو ہمارے شہری علاقوں میں فوجی بھائیوں کے لئے عوام الناس گرم کپڑوں کی مد میں سامان جمع کر رہے تھے۔
دیگر واقعات
جمع شدہ کپڑے بعدازاں فوج کو پہنچانے کے لئے ریڈ کراس کے حوالے کئے جاتے تھے۔ انہیں دنوں کا ذکر ہے کہ میں ایک روز صبح سویرے دفتر کا ٹائم شروع ہونے سے آدھا گھنٹہ قبل ساڑھے سات بجے دفتر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ہمارا چپڑاسی اپنا پرانا سویٹر اْتار کر فوجی جوانوں کے لیے جمع شدہ سامان میں سے نسبتاً ایک بہتر خوبصورت سویٹر زیب تن کر رہا تھا۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔