مخصوص نشستیں نظر ثانی کیس: دیکھنا ہے الیکشن کمیشن نے آئین سے روگردانی کی یا سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے، جسٹس امین الدین

سپریم کورٹ کی اہم سماعت
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ آف پاکستان میں مخصوص نشستوں سے متعلق اہم آئینی کیس کی سماعت جاری ہے، جس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی کی درخواستوں پر بحث کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11 رکنی فل بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، اور یہ سماعت سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب سے مل کر امن کے قیام کیلئے کام کرتے رہیں گے: وزیراعظم
دلائل کی شروعات
نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے مطابق معروف وکیل سلمان اکرم راجہ نے پی ٹی آئی رہنما کنول شوزب کی نمائندگی کرتے ہوئے دلائل کا آغاز جسٹس جمال مندوخیل کی والدہ کے انتقال پر تعزیت سے کیا۔ اپنے دلائل میں انہوں نے سندھ ہائیکورٹ بار کیس اور مشرف دور کی ایمرجنسی کو کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیا۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ آئین کی بحالی کے لیے مداخلت کا اختیار رکھتی ہے اور غلط اقدامات کو درست کرنے کے لیے فیصلے دے چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جی ایچ کیو حملہ کیس؛ عمران خان کو چالان کی نقول فراہم، بانی پی ٹی آئی کا صحت جرم سے انکار
الیکشن ایکٹ کا سیکشن 66
سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 66 واضح کرتا ہے کہ پارٹی ٹکٹ کے لیے کسی تیسرے فریق کی اجازت ضروری نہیں، صرف سیاسی جماعت کی جانب سے جاری کردہ ٹکٹ کافی ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 22 دن تک اپنے گھر میں حراست میں رہ کر 51 لاکھ روپے گنوانے والے شخص کی کہانی: ‘میں نوسربازوں کو باتھ روم جانے سے پہلے بھی بتاتا’
امیدواروں کی جانب سے شواہد
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا امیدواروں نے پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا کوئی ثبوت دیا؟ جس پر وکیل نے کہا کہ جمع کرائے گئے اور ججز کی اکثریت نے انہیں تسلیم بھی کیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ اکثریتی فیصلے میں اس پر آبزرویشنز شامل ہیں؟ جواباً سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فیصلے میں تفصیل موجود ہے، وقت کی قلت کے باعث مکمل نہیں پڑھ رہا۔
یہ بھی پڑھیں: جہاز گرنے پر چینیوں نے بھارت کا مذاق اُڑانا بند نہ کیا، ایک اور ویڈیو آ گئی، دیکھ کر بھارتیوں کو غصہ آجائے
پارٹی وابستگی کے مسائل
جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کچھ نے پارٹی وابستگی ظاہر کی اور کچھ نے نہیں، جس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ صرف 39 امیدواروں نے وابستگی ظاہر کی۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ بقیہ 41 بھی بیان حلفی دے سکتے تھے۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ تمام دستاویزات جمع کرائی گئیں اور سب نے وابستگی ظاہر کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: شفاعت کلیم خٹک کو فرینکفرٹ میں پاکستان کونسل جنرل کا عہدہ سنبھالنے پر عمران ضیاء اور راجہ انجم کی مبارکباد
انتخابات کے نتائج اور چیلنجز
جسٹس امین نے کہا کہ یہ پرائیویٹ ریکارڈ ہے، پبلک دستاویزات نہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ پی ٹی آئی نے بطور جماعت کوئی اقدام کیا تھا؟ وکیل نے کہا کہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کے اقدامات کو چیلنج کیا گیا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ یہ ذاتی کیس ہے یا پی ٹی آئی کا؟ وکیل نے جواب دیا کہ 24 دسمبر 2023 کو الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی جماعت نہیں، یہی بنیاد اس مسئلے کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 9 مئی جلاؤ گھیراؤ کے ایک اور مقدمے میں شاہ محمود قریشی و دیگر پر فرد جرم عائد
انٹراپارٹی الیکشن کی حیثیت
جسٹس امین الدین نے پوچھا کہ انٹراپارٹی الیکشن تسلیم نہ ہونے پر کسی نے ان کو درست قرار دیا؟ وکیل نے کہا کہ ہم نے انٹراپارٹی الیکشن تسلیم کیے ۔ جسٹس امین نے کہا کہ اگر تسلیم کیے کہ درست نہیں ہوئے تو اس کے نتائج تو ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: خان کو لیے بغیر ڈی چوک سے نہیں نکلوں گی، بشریٰ بی بی کا خطاب
الیکشن کے رول کی تشریح
سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے کہ رول 94 کی غلط تشریح کی بنیاد پر مخصوص نشستوں اور انتخابی نشان سے محروم کیا گیا۔ جب جسٹس امین نے سوال کیا کہ انٹراپارٹی الیکشن نہیں تسلیم ہوئے تو گوہر چئیرمین کیسے بنے؟ وکیل نے کہا کہ یہ ایک الگ معاملہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹیسٹ رینکنگ جاری، شاہین آفریدی کی مزید تنزلی، کونسے نمبر پر چلے گئے؟ جانیے
مخصوص نشستوں کی فہرست
جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ پر آپ کی کوئی فہرستیں نہیں۔ وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن فہرستیں نہیں لے رہا تھا، ہم نے ویب سائٹس پر اپلوڈ کیں، لاہور ہائیکورٹ گئے، پھر اسکروٹنی کی مدت میں توسیع ملی۔
دلائل کا اختتام
دلائل مکمل ہونے پر سینئر وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے اور کہا کہ انہیں 23 سے چھٹی دی گئی ہے۔ جس پر جسٹس امین نے کہا کہ آپ سینئر ہیں، لیکن سارے دلائل مکمل ہو چکے ہیں، اور آپ تیسرے وکیل ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ اگر عدالت التوا کی درخواست مسترد کرتی ہے تو آگاہ کر دیں، جس پر بینچ نے التوا کی درخواست مسترد کر دی۔