کبھی اکیلا ہوتا تو ماں کی یادیں اور پرانے انڈین گانے میرے ہمسفر ہوتے، ریل میں بیٹھا مسافر کبھی اکیلے پن کا شکار نہیں ہوتا چھک چھک ہمیشہ ساتھ رہتی ہے

مصنف کا تعارف
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 210
یہ بھی پڑھیں: بشار الاسد کے سب سے خطرناک مخالف شامی باغی کون ہیں؟
قلعہ سوبھا سنگھ کی تاریخ
قلعہ سوبھا سنگھ، سردار سوبھا سنگھ کے آباد کردہ قدیم قصبے کے درمیان ایک اونچی، بڑی اور قلعہ نما حویلی دور سے ہی دکھائی دیتی تھی۔ اسی سردار کے نام کی نسبت سے یہ قصبہ قلعہ سوبھا سنگھ کہلایا۔
یہ بھی پڑھیں: اداکارہ ماہم عامر کا لڑکیوں کو شادی سے متعلق مشورہ
پہلا دورہ
جب میں پہلی بار یہاں اترا تو غربت، ٹوٹی سڑکیں، شکستہ عمارات اور اجڑے ریلوے سٹیشن کا سامنا ہوا۔ سردار سوبھا کی حویلی میں ایک لڑکوں کا پرائمری سکول بھی تھا۔ یہ بستی سو سال پرانی ہونے کے باوجود 1990ء میں بھی انتہائی پس ماندہ تھی۔ اڑتی مٹی، بدحال کسان، اور ابلتی گلیاں اس بستی کی پسماندگی کی کہانی سنا رہی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: مراد سعید سب سے زیادہ ووٹ لینے والے سینیٹر ہیں، انہیں 26 ووٹ ملے : نصرت جاوید
سفر کی مشکلات
اس زمانے میں یہاں پہنچنا آسان نہ تھا۔ کھٹارا بسیں کئی گھنٹوں کی مسافت طے کر کے مسافر کو یہاں لاتی تھیں، اور اتنے ہی گھنٹے انہیں اپنی کمر سیدھی کرنے میں لگ جاتے تھے۔ ہاں، ریل کا سفر کچھ آرام دہ تھا، لیکن لاہور سے یہاں پہنچنے میں 3 گھنٹے لگتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ہر کسی کے پاس لندن جانے کا آپشن نہیں ہوتا، سیمی راحیل کا لاہور میں سموگ پر طنزیہ تبصرہ
ریلوے کا سفر
ریل میں بیٹھا مسافر کبھی اکیلے پن کا شکار نہیں ہوتا، کیونکہ ریل کی چھک چھک یا سیٹی ہمیشہ اس کے ساتھ رہتی ہے۔ البتہ لالہ موسیٰ سے ریل کے ذریعے یہاں پہنچنے کے لیے تین ٹرینیں بدلنی پڑتی تھیں۔ رنگ برنگے مسافروں کی موجودگی دل چسپ ہوتی تھی، اور اگر قسمت اچھی ہو تو کچھ دیہاتی خواتین بھی نظر آ جاتی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: پولیس اور رینجرز کی علی امین گنڈا پور کی گرفتاری کے لیے پی ہاﺅس میں داخلے کی کارروائی
سفر کی یادیں
میں کبھی اپنی موٹر سے یہاں آتا تو مشتاق کا چھوٹا بھائی افتخار میرے ساتھ ہوتا، کیونکہ میں نے ابھی لالہ موسیٰ کا سرکاری گھر خالی نہیں کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم شہباز شریف آج سے مختلف ممالک کے دورے پر روانہ ہوں گے
ادارے میں شمولیت
میں نے لاہور ہیڈ کواٹرز میں رپورٹ کی۔ وہاں ایڈمن افسر چوہدری کریم میرے سسر کے جاننے والے تھے۔ انہوں نے مجھے خالی اسٹیشنز کی فہرست فراہم کی۔ ان میں لاہور سے نزدیک ترین "قلعہ سوبھا سنگھ" تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سرکاری ملازمین کو احتجاج کی اجازت نہیں، نیا حکمنامہ جاری
تبادلے کی وضاحت
چند دن بعد مجھے تبادلے کے آرڈرز ملے اور میں باؤ ٹرین پر سوار ہونے کے بعد ناروال پہنچا۔ یہاں میں نے اپنی جوائننگ دی۔ اے ڈی ایل جی ناروال عارف محمود نائیک صاحب چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ کلاس فیلو رہے۔
یہ بھی پڑھیں: مریدکے میں جس مسجد پر حملہ ہوا وہاں کیا تھا اور مقامی لوگ اتنے غصے میں کیوں ہیں؟ الجزیرہ کی رپورٹ نے حقیقت دنیا کو دکھا دی
پہلا دن
اگلے روز باؤ ٹرین نے صبح 6 بجے لاہور سے روانہ ہو کر 9 بجے نئے اسٹیشن پر پہنچا دیا۔ سردی کا آغاز تھا اور ریل کی کھڑکیوں سے آنے والی گرد آلود ہوا نے ناک کے نتھنوں میں مٹی کے اتنے ذرات بھر دئیے تھے کہ زکام کا نہ ہونا معجزہ تھا۔
ختم
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔