میری سیاست اس روز ختم ہو گئی تھی جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی اور جو تھوڑا بہت سیاست کا کیڑا بچا تھا وہ بی بی کی شہادت نے ختم کر دیا تھا
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 211
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم آزاد کشمیر انوار الحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری آج ہوگی
تنہائی کا منظر
دفتر کیا، ایک اجڑی عمارت سنسان جگہ تنہا کھڑی تھی جس کی بجلی عدم ادائیگی بل کٹ چکی تھی۔ چند ٹوٹی کرسیاں، ایک برباد قسم کا میز، لوہے کی ٹرنک نما زنگ آلود الماری، ایک اجڑا ہوا نائب قاصد، ایک بکھرا ہوا چوکیدار، ایک نہایا ہوا اکاؤنٹ کلرک اور 3 نہلے سیکرٹری جن میں 2 کے کندھوں پر لمبے رومال (مقامی زبان میں "پرنے") جبکہ تیسرا خود سے آوازارتھا۔ انہیں دیکھ کر لالہ موسیٰ والی افسری آدھی رہ گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: بالفور اعلامیہ: سادہ کاغذ پر لکھے 67 الفاظ نے مشرق وسطی کی تاریخ کو کیسے بدل ڈالا؟
سرکاری رہائش
قریب ہی سرکاری رہائش گاہ تھی جس میں داخل ہونے کے لئے سکندر اعظم جتنا بہادر دل ہونا لازمی تھا جو کم از کم میرے پاس تو نہ تھا۔ عملہ سے تعارف ہوا، افسوس مجھے کسی کا نام بھی یاد نہیں رہا ماسوائے اکاؤنٹ کلرک جس کا نام غالباً "ستار" تھا۔ دفتر تو ڈھنگ سے بیٹھنے کی جگہ نہ تھی، قریب ہی شاید نائب تحصیل دار کا دفتر یا کا پٹوار خانہ اس سے کہیں بہتر تھا۔ یہ منظر دیکھ کر بات سمجھ آئی کہ کیوں تبادلے پر افسران تبادلہ رکوانے کی کوشش کرتے تھے کہ اکثر دفاتر اور گھروں کی ایسی ہی صورت حال تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کوہ پیمائی میں پاکستان کا پرچم بلند کرنے والے شہروز کاشف حکومتی انعام کے منتظر
روزمرہ کی روٹین
دوپہر 2 بجے باؤ ٹرین سیالکوٹ سے چل کر 3 بجے کے قریب قلعہ پہنچتی۔ ریل آؤٹر سگنل سے قلعہ سٹیشن داخل ہوتی تو دفتر کا نائب قاصد مجھے اطلاع کرتا، میں اس میں سوار ہوتا اور 10 روپے میں لاہور پہنچ جاتا۔ کبھی لالہ موسیٰ سے اپنی کار میں یہاں آتا، 2 گھنٹے دفتر رہتا اور واپس چلا جاتا۔ روٹین ایسے ہی چل رہی تھی کہ انہی دنوں حکومت نے بلدیاتی انتخابات کا اعلان کر دیا۔ عام انتخابات کے مقابلے یہ الیکشن زیادہ contested ہوتے ہیں۔ لڑائیاں بھی زیادہ اور مخالفتیں بھی زیادہ۔ قلعہ سوبھا سنگھ کی 3 یونین کونسلوں کا الیکشن کا کام بھی ناروال ہی ہوتا کہ یہاں تو ہمارے پاس ٹائیپ رائٹر بھی نہ تھا۔ نائیک صاحب نے ویسے بھی چھوٹ دے رکھی تھی کہ الیکشن ہے دفتر آنا چاہو تو ٹھیک، نہ آنا چاہو تو تب بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ کام ہو جائے گا۔ نوجوان افسر کے لئے یہ بڑی عجیب لیکن نائیک صاحب جیسے جہاندیدہ افسر کے لئے یہ عام سی بات تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کیا پاک بھارت کشیدگی کا اصل فاتح چین ہے؟ بی بی سی کا حیران کن تجزیہ
ذاتی خیالات
میرا ایمان ہے کہ اللہ اپنے بندے کو اتنا ہی آزماتا ہے جتنی اس کی سکت ہوتی ہے۔ اللہ اگر ایک در بند کرتا ہے تو کئی اور کھول بھی دیتا ہے۔ ہم اپنے دنیاوی فائدوں اور ظاہری نمود کے لئے اللہ کے فیصلوں کو وقتی طور پر پسند بھی نہیں کرتے۔ انسان لالچی بھی ہے اور صبر سے عاری بھی۔ مجھے لالہ موسیٰ سے ٹرانسفر کا دکھ تھا۔ پہلی اور بڑی وجہ وہاں کا سرکاری گھر تھا جو رہنے کی عمدہ اور وسیع جگہ تھی۔ دوسری سٹیشنز پر ایسی سہولت یا تو سرے سے تھی ہی نہیں اور اگر تھی تو رہنے کے قابل ہی نہ تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای نے وزیر خارجہ عباس عراقچی کو روسی صدر کیلئے ایک خط دیاہے جس میں حمایت کی درخواست کی گئی ہے
لوگوں کے ساتھ روابط
دوسری لالہ موسیٰ سٹیشن جی ٹی روڈ پر تھا، جب چاہو آسانی سے گھر جا سکتا تھا۔ تیسری مقامی لوگوں میں گھل مل گیا تھا۔ بلدیاتی الیکشنز قریب آن پہنچے تھے۔ قلعہ دیدار سنگھ میں کوئی اتنا سخت مقابلہ نہ تھا۔ 3 میں سے ایک یونین کونسل کے ممبران بلا مقابلہ منتخب ہو گئے تھے، بس 2 میں مقابلہ تھا۔ جہاں مقابلہ تھا وہاں اے ڈی ایل جی مجھے کہہ چکے تھے کہ "آپ کی مرضی ہے آئیں یا نہ آئیں۔ آئیں تو مجھ سے گپ شپ کریں اللہ اللہ خیر سلا۔" مجھے بعد میں معلوم ہوا وہ وہاں کسی ایک گروپ کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ میری موجودگی شاید ان کے لئے کچھ رکاوٹ ہوتی۔
یہ بھی پڑھیں: عظمیٰ بخاری نے لاہور پریس کلب ہاؤسنگ سکیم ایف بلاک میں بجلی کی تنصیب کا افتتاح کر دیا
سیاسی دلچسپیاں
بہرحال، مجھے مقامی یا قومی سیاست میں کوئی دلچسپی ہی نہ تھی۔ میری سیاست اس روز ختم ہو گئی تھی جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی اور جو تھوڑا بہت سیاست کا کیڑا بچا تھا بی بی کی شہادت نے ختم کر دیا تھا۔ سیاست کا شوق پھر عمران خان کے میدان میں آنے سے بیدار ہوا تھا مگر دل ٹوٹ گیا۔ ویسے ہمارے بچپن میں "اندھے کو بھی حافظ" کہتے تھے۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








