نیتن یاہو کو چھوڑ دو وہ اہم کام انجام دے رہے ہیں: ڈونلڈ ٹرمپ
ٹرمپ کا نیتن یاہو کے خلاف عدالتی مقدمات پر سخت ردعمل
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے خلاف جاری عدالتی مقدمات پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ کارروائیاں نہ رکیں تو امریکا اسرائیل کو دی جانے والی اربوں ڈالر کی امداد پر نظرثانی کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب بھر کی جیلوں میں “سمارٹ لائیبریری” پراجیکٹ کا آغاز، 1 لاکھ کتابیں پہنچا دی گئیں، قیدیوں کے لیے ضابطہ اخلاق بھی جاری
سیاسی انتقام اور انصاف کا مذاق
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کرتے ہوئے ٹرمپ نے ان مقدمات کو "سیاسی انتقام" اور "انصاف کا مذاق" قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: سکول اساتذہ کیلئے ڈریس کوڈ کی نئی ہدایات جاری ، فی میل ٹیچرز پر بھی پابندی لگ گئی
ناگفتہ بہ حالات میں اہم مذاکرات
انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو اس وقت حماس سے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اہم مذاکرات میں مصروف ہیں اور ایسے وقت میں ان پر عدالتوں میں پیشی کا دباؤ ڈالنا ایک "پاگل پن" ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قابل اعتماد رازدار دوست کے ساتھ گفتگو کیجیے جو آپ کو ماضی کے اثرات سے باہر نکلنے میں مدد مہیا کرے، اپنی کمزوریوں کی تحریری فہرست تیار کیجیے.
نیتن یاہو کا دفاع
ٹرمپ نے نیتن یاہو کو "جنگی ہیرو" اور ایران کے خلاف امریکی اسرائیلی کامیاب اتحاد کا معمار قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ معمولی الزامات جیسے سِگار یا تحفوں پر ایک اہم وزیر اعظم کو عدالت میں گھسیٹنا ایک خطرناک عمل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شیرشاہ ملتان سے 20 کلومیٹر پہلے چھوٹا سا قصبہ اور ریلوے جنکشن، جس کی تاریخی اہمیت بہت زیادہ ہے، اسے بندرگاہ بنا کر سامان اتارا یا چڑھایا جاتا تھا۔
مالی امداد پر نظرثانی کی تنبیہ
انہوں نے تنبیہ کی کہ امریکا ہر سال اسرائیل کے دفاع کے لیے سب سے زیادہ مالی امداد دیتا ہے، اور یہ صورتحال اب قابل برداشت نہیں رہی۔
یہ بھی پڑھیں: ملائشیا کی ایئر ایشیا ایکس کا کراچی سے کوالمپور کے لیے ہفتہ وار 4 پروازیں شروع کرنے کا اعلان
اسرائیلی عدلیہ کو پیغام
ٹرمپ نے اسرائیلی عدلیہ سے مطالبہ کیا کہ "نیتن یاہو کو چھوڑ دو، وہ ایک بہت اہم کام انجام دے رہے ہیں۔"
پیشتر کی موجودہ صورتحال
یہ پہلی بار نہیں کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو کے حق میں آواز بلند کی ہو؛ دو روز قبل بھی وہ عدالتی کارروائیوں کو "سیاسی انتقام" قرار دے چکے ہیں۔








