پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کی ترسیلات زر کی سبسڈی سے متعلق گمراہ کن دعووں کی سختی سے تردید

پاکستان بینکس ایسوسی ایشن کا بیان

لاہور (پ ر )پاکستان بینکس ایسوسی ایشن    اخبارات میں شائع ہونے والی ان گمراہ کن خبروں  کی سختی سے تریدکرتی ہے جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے ترسیلات زر کو فروغ دینے کے لیے بینکوں کو دی جانے والی سبسڈی کا معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ یہ دعوے ایسے وقت میں عوام کااعتماد  مجروع کرنے کا سبب بن رہے ہیں جب ملک کا مالی استحکام براہ راست باقاعدہ اور محفوظ ترسیلات پر منحصر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکہ سے اسلحے کی تازہ کھیپ اسرائیل پہنچ گئی

پاکستان ریمٹنس انیشی ایٹو (PRI)

ترسیلات زر کے فروغ کے لیے پاکستان ریمٹنس انیشی ایٹو کا آغاز 2009 میں کیا گیا۔ اس سے پہلے 2008 میں باقاعدہ ذرائع سے سالانہ صرف 6.5 ارب ڈالر کی ترسیلات موصول ہو رہی تھیں جبکہ 20 ارب ڈالر سے زائد کی رقوم غیر قانونی حوالہ یا ہنڈی کے ذریعے منتقل ہو رہی تھیں، جس سے ملک کے ادائیگیوں کے توازن پر شدید دباؤ پڑتا تھا۔ پی آر آئی کے ذریعے ان رقوم کو بینکنگ نظام میں لانے کے لیے 20 سعودی ریال فی ٹرانزیکشن کا انسینٹو متعارف کرایا گیا، جو اوسطاً 500 ڈالر کی ترسیل کا تقریباً 2.25 فیصد بنتا تھا۔ یہ اسکیم مہنگے غیر ملکی قرضوں، زائد سودی شرحوں اور لمبی مدت کی واپسی کے خطرات کے مقابلے میں بہتر متبادل ثابت ہوئی، کیونکہ پی آر آئی کے انسینٹو ایک دفعہ کی ادائیگی ہیں جن کی کوئی واپسی نہیں ہوتی، اور یوں ملکی معیشت کے لیے دو طرفہ فائدہ ثابت ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: ریمو ڈی سوزا اور اہلیہ پر 12 کروڑ روپے ہڑپنے کا مقدمہ درج

بینکوں کا کردار

پاکستان بینکس ایسوسی ایشن واضح کرتی ہے کہ یہ انسینٹو دراصل بینکوں کا منافع نہیں ہوتے بلکہ بینک اس مقابلے کی فضا میں اپنے شراکت داروں اور ترسیل کنندگان کو بہتر نرخ اور اضافی رعایتیں دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان پر پڑنے والا مالی بوجھ حکومت کی سبسڈی سے صرف جزوی طور پر پورا ہوتا ہے جبکہ باقی اخراجات بینک خود برداشت کرتے ہیں تاکہ ملکی معیشت کو مستحکم رکھا جا سکے اور درآمدی ادائیگیوں کے لیے ضروری زرمبادلہ کی دستیابی برقرار رہے۔ مثال کے طور پر، بعض اوقات بینک انٹر بینک ریٹ کے مقابلے میں 3 سے 5 روپے فی ڈالر زیادہ ادا کرتے ہیں تاکہ غیرقانونی حوالہ نظام کی حوصلہ شکنی کی جا سکے، جس سے انہیں براہ راست نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملتان میں بیگم کا شوہر پر جسمانی تعلقات کے دوران جنسی تشدد کا الزام، خاتون زخمی، پولیس نے ملزم کو گرفتار کرلیا

تکنیکی سرمایہ کاری

ترسیلات کو محفوظ، تیز رفتار اور شفاف طریقے سے لانے کے لیے بینکوں کو جدید ٹیکنالوجی، بین الاقوامی پارٹنرز کے ساتھ روابط، سخت کمپلائنس سسٹمز اور صارفین تک رسائی کے لیے خطیر سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے۔ گزشتہ برسوں میں ترسیلات پر دیے جانے والے ریبیٹ کا 90 فیصد سے زائد اور موجودہ مالی سال میں 100 فیصد سے زیادہ رقم براہ راست بیرون ملک شراکت داروں کو منتقل کی گئی، جس سے بینکوں کو کوئی براہ راست فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ مزید یہ کہ بینک اپنے شراکت داروں کو پیشگی ادائیگیاں کرتے ہیں جبکہ حکومتی ری ایمبرسمنٹ میں کئی مہینے لگ جاتے ہیں، جس سے ان کے ورکنگ کیپیٹل پر اضافی دباؤ آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جنگ بندی: پاک بھارت ڈی جی ایم اوز کی بات چیت تاخیر کا شکار

شفافیت اور قانونی تقاضے

بینک ہر ماہ پی آر آئی کے تحت آنے والی ترسیلات کی مکمل رپورٹنگ اسٹیٹ بینک کو فراہم کرتے ہیں، جسے بینکوں کے انٹرنل آڈٹ کی تصدیق کے بعد اسٹیٹ بینک خود بھی جانچتا ہے، اور پھر ہی انسینٹو کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ اس بنیاد پر بینکوں پر عائد الزامات کہ وہ ترسیلات کے اعدادوشمار میں ہیر پھیر یا ٹیکس چوری کی معاونت کرتے ہیں، سراسر بے بنیاد ہیں۔ بینک سخت قوانین، اینٹی منی لانڈرنگ اور کاؤنٹر ٹیرر فنانسنگ کے ضوابط کے تحت کام کر رہے ہیں اور ان کے آزاد آڈٹ بھی ہوتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جوابی کارروائی کے کئی آپشن لیکن پاکستان کی کوشش کیا ہوگی؟ الجزیرہ نے تجزیہ پیش کردیا

فری لانسروں کا معاملہ

فری لانسرز اور آئی ٹی ایکسپورٹرز کی آمدنی کو ترسیلات میں شمار کرنے کا معاملہ ایک پالیسی کی درجہ بندی کا ایشو ہے، جس میں وضاحت کی ضرورت ہے، اور اس میں بینکوں کی کوئی بدیانتی  شامل نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: New Petition Filed Against Proposed Constitutional Amendments in Supreme Court

غلط معلومات کے اثرات

پاکستان بینکس ایسوسی ایشن نے واضح کرتی ہے  اس طرح کی خبریں دراصل ان مفاد پرست حلقوں کی طرف سے پھیلائی جاتی ہیں جو باضابطہ بینکنگ نظام کو کمزور کر کے ترسیلات کو غیرقانونی ذرائع میں واپس لے جانا چاہتے ہیں۔ انہی بینکنگ اقدامات کے باعث پاکستان نے عالمی AML/CFT معیار پر پورا اترنے میں کامیابی حاصل کی اور ممکنہ بلیک لسٹنگ جیسے خطرات سے محفوظ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گھر میں بم رکھ کر 20 لاکھ تاوان کی وصولی کا مطالبہ، بم نقلی نکلا

آگے کا راستہ

حقیقت یہ ہے کہ بینک آج بھی  نقصان برداشت کر کے بہتر زر مبادلہ کی شرح دے رہے ہیں تاکہ ترسیلات قانونی ذرائع سے آئیں، کیونکہ اگر یہ انسینٹو نہ ہوں تو دوبارہ حوالہ یا ہنڈی کے نظام میں پیسے جانے لگیں گے، جو ملکی مالی استحکام کے لیے نقصان دہ ہے اور  اس سے مزید مہنگے بیرونی قرضوں پر انحصار بڑھ جائے  گا۔

خلاصہ

ایسوسی ایشن واضع کرتی ہے کہ یہ تاثر دینا کہ بینک ان انسینٹو سے غیر معمولی فائدہ اٹھا رہے ہیں، حقیقت کے برعکس ہے۔ دراصل ان انسینٹو کی بدولت محفوظ، شفاف اور قابل ٹریس ترسیلات ممکن ہوتی ہیں، جو پاکستان کی معیشت کے لیے ضروری ہیں۔ بینک نہ صرف ملک کے سب سے بڑے ٹیکس دہندگان اور آجروں میں شامل ہیں بلکہ سالانہ 850 ارب روپے سے زائد کے ٹیکس ادا کرتے ہیں اور قومی معیشت کے تمام شعبوں میں مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ ان کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش  سے  ایسے وقت میں عوامی اعتماد کو کمزور  اور مجروع ہو رہا ہے جب ملک کو اتحاد اور حقیقت پسندی کی شدید ضرورت ہے۔

پاکستان بینکس ایسوسی ایشن واضح کرتی ہے  اگرچہ ان اسکیموں کے طریقہ کار میں وقت کے ساتھ بہتری لائی جا سکتی ہے، مگر پی آر آئی اب بھی ایک کامیاب کہانی ہے جو پاکستان کو مالی خودمختاری کی طرف لے جا رہی ہے اور بیرونی قرضوں یا زرمبادلہ کی امداد پر انحصار کم کر رہی ہے۔ ایسوسی ایشن نے پالیسی سازوں کے ساتھ بھرپور تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے تاکہ پاکستان کی معیشت مستحکم رہے، عالمی معیار کی پاسداری برقرار رہے اور مالی استحکام یقینی بنایا جا سکے۔

Categories: بزنس

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...