ٹیکس چور سالانہ اربوں روپے لوٹ کر مزے کرنے لگے، ایف بی آر خاموش تماشائی

پاکستان میں ٹیکس چوری کا مسئلہ
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)معروف صحافی و تجزیہ نگار انصار عباسی نے بتایا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو اپنی آمدنی بڑھانے اور ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کی سخت ضرورت ہے، ایسے میں ٹیکس چور بے خوفی سے اربوں روپے لوٹ رہے ہیں جبکہ ایف بی آر ان ٹیکس چوروں کو پکڑنے میں اپنی قانونی ذمہ داری پوری نہیں کر پا رہا۔
یہ بھی پڑھیں: یہ کہنا مشکل ہے کہ امریکا مستقبل میں بھی انگیج رہے گا؛ ڈاکٹر ملیحہ لودھی
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کا احاطہ
نجی ٹی وی جیونیوز کے مطابق یہ چشم کشا اور سنگین انکشاف آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی مالی سال 2024-25ء کی تازہ ترین رپورٹ میں سامنے آیا ہے جس میں ٹیکس چوری اور قانون نافذ نہ کرنے کے نقائص کا احاطہ کیا گیا ہے، جس سے ہر سال قومی خزانے کو سیکڑوں ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی بجٹ، الیکٹرک گاڑیوں کیلئے فنڈنگ کا فیصلہ، پیٹرول، ڈیزل گاڑیوں پر لیوی عائد کیے جانے کا امکان، تازہ خبر آگئی۔
ٹیکس چوروں کی سرگرمیاں
رپورٹ میں ہزاروں ایسے کیسز کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں ٹیکس دہندگان بڑے پیمانے پر آمدنی چھپانے، جعلی کلیم، ریٹرن جمع نہ کرانے، ٹیکس کریڈٹ کے غلط استعمال اور آمدنی چھپانے میں ملوث ہیں۔ ایسے ٹیکس چوروں کو ایف بی آر کے فیلڈ دفاتر میں ناقص نگرانی، سست روی سے کارروائی اور کمزور داخلی کنٹرولز کی وجہ سے حوصلہ ملتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: راجن پور: کچے میں پولیس آپریشن، ہنی ٹریپ کے ذریعے مغوی بنایا گیا نوجوان بازیاب
تشویش ناک صورتحال
اگرچہ گزشتہ برسوں کی رپورٹس میں بھی انہی بے ضابطگیوں کی مسلسل نشاندہی کی گئی لیکن اس کے باوجود کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ اس صورتحال کو آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں "انتہائی تشویش ناک" قرار دیا ہے، امیر افراد کی جانب سے سپر ٹیکس کی بڑے پیمانے پر چوری سب سے زیادہ باعثِ تشویش ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی، ن لیگ، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں سے اختلاف ہے دشمنی نہیں: فضل الرحمان
سپر ٹیکس کی عدم ادائیگی
رپورٹ کے مطابق، 1026 ٹیکس دہندگان نے سپر ٹیکس ادا نہیں کیا، جس سے قومی خزانے کو 167.9 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ ایف بی آر کے پاس ادائیگی نافذ کرنے کا قانونی اختیار اور طریقہ کار موجود ہونے کے باوجود بروقت کارروائی نہیں کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: 250 افراد کی شرکت، شرمناک سوئنگنگ پارٹیاں ، جوڑے نے تمام حدیں پار کردیں
دیگر بے ضابطگیاں
اسی طرح، 1084 ٹیکس دہندگان نے ناقابل قبول کاروباری اخراجات جیسے لیز فنانس چارجز شامل کیے، جو انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعہ 21 کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے 149.5 ارب روپے کم جمع کیے جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: گنڈاپور کے اہم پیغام کے باوجود عمران خان نے مذاکرات کا راستہ چننے سے انکار کر دیا
ٹریننگ اور اقدامات کی ضرورت
آڈیٹر جنرل نے خبردار کیا کہ جب تک "سینکرونائزڈ وتھ ہولڈنگ ایڈمنسٹریشن اینڈ پیمنٹ سسٹم" (SWAPS) پر فوری عمل نہیں کیا جاتا، تب تک نظام میں اربوں روپے کی لیکیج کا سلسلہ جاری رہے گا۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور کی درسگاہ میں پیش آنے والے افسوسناک واقعہ کی ساری ذمہ داری ادارہ کی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے، لیگی رہنما چودھری نورالحسن تنویر کا دعویٰ
ٹیکس دہندگان کے خلاف کارروائی کی ناکامی
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بہت سے ٹیکس دہندگان نے اپنی فروخت کم ظاہر کر کے یا خریداری بڑھا کر آمدنی چھپائی۔ ایسے 1181 کیسز میں 54.2 ارب روپے کا انکم ٹیکس ادا نہیں کیا گیا۔
نتیجہ اور سفارشات
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ تقریباً تمام بڑے مسائل 2019 سے 2024 تک کی آڈٹ رپورٹس میں متعدد مرتبہ اٹھائے گئے، لیکن وہی بے ضابطگیاں دہرائی جا رہی ہیں۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ واجب الادا ٹیکس فوراً وصول کیے جائیں اور قانونی کارروائی بروقت کی جائے۔