آپریٹر نے ایمرجنسی کی نوعیت کو غلط سمجھا اور اسے میڈیکل ایمرجنسی سمجھ کر کارروائی کی، سانحہ سوات سے متعلق ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122 شاہ فہد کا انکشاف
سانحہ سوات کے نئے حقائق
سوات (ڈیلی پاکستان آن لائن) سانحہ سوات سے متعلق نئے حقائق سامنے آگئے۔ ریسکیو 1122 کے ڈائریکٹر جنرل شاہ فہد نے روزنامہ ڈان کو بتایا کہ ہوٹل کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں سیاحوں کو صبح 9:37 پر دریا کے کنارے داخل ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ "اس وقت دریا خشک تھا، لیکن چند منٹوں میں پانی اچانک بڑھ گیا۔ 9:45 تک دریا کا پانی خطرناک حد تک بلند ہو چکا تھا،" انہوں نے بتایا۔
یہ بھی پڑھیں: تباہ شدہ اسٹیشنوں کی عمارتیں تو ہر جگہ نظر آتی ہیں لیکن اب کوئی گاڑی سیٹی بجاتی نہیں جاتی، خوبصورت یادیں میرے حافظے میں پنجے گاڑے بیٹھی ہیں
پہلا کال اور غلط فہمی
ان کے مطابق، 9:49 پر مدد کے لیے پہلا کال موصول ہوا۔ تاہم، ایک مہلک غلط فہمی ہوئی۔ آپریٹر نے ایمرجنسی کی نوعیت کو غلط سمجھا اور اسے میڈیکل ایمرجنسی سمجھ کر کارروائی کی، حالانکہ یہ ایک ریسکیو آپریشن تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ہندو اور مسلمان کے لباس میں دوقومی نظریہ موجود تھا،تقسیم ہند سے قبل ہندو دکاندار مسلمان کو سبزی دیتا تورقم ہاتھ میں لینے کی بجائے برتن آگے کردیتا
ریسکیو کا عمل
ایک ایمبولینس روانہ کی گئی جو 9:56 پر موقع پر پہنچ گئی۔ جب ریسپانڈرز کو اندازہ ہوا کہ یہ دریا میں پھنسے افراد کو بچانے کا معاملہ ہے، تو انہوں نے ایک اور گاڑی کی درخواست کی۔ ایک ڈیزاسٹر ریسکیو وہیکل جس میں جنریٹرز، ربڑ کی کشتیاں اور دیگر آلات موجود تھے، جائے وقوعہ پر روانہ کی گئی، لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کا سب سے بڑا کارڈ ان کی قید ہے، حامد میر
انکوائری کی صورتحال
انہوں نے کہا کہ ایک انکوائری جاری ہے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ تاخیر آپریٹر کی غلطی کی وجہ سے ہوئی یا کال کرنے والے کی جانب سے صورتحال صحیح انداز میں بیان نہ کرنے کی وجہ سے۔ تاہم، یہاں تک کہ سرکاری ریکارڈز میں بھی معمولی فرق موجود ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر دھماکا کرنیوالے بی ایل اے دہشتگرد کی تفصیلات سامنے آگئیں
سرکاری ریکارڈز کا جائزہ
ڈان کو دستیاب معلومات کے مطابق، سوات کی ضلعی انتظامیہ کو پہلا الرٹ 9:55 پر موصول ہوا، اور ریسکیو 1122 کی ایمبولینس تقریباً 10:07 بجے جائے وقوعہ پر پہنچی۔ باقاعدہ ریسکیو کوششوں کا آغاز 10:15 پر ہوا، جس میں ہوا سے بھرے ٹائروں سے بنی ایک مقامی کشتی استعمال کی گئی۔ 10:36 بجے، کٹتا ہوا دریا کا کنارہ ٹوٹ گیا اور پھنسے ہوئے سیاح دریا کی تیز دھار میں بہہ گئے۔
غوطہ خوروں کی مشکلات
متعدد سرکاری افسران اور ریسکیو ماہرین نے ڈان کو بتایا کہ دریائے سوات کی پتھریلی، کم گہری اور تیز بہاؤ والی نوعیت اسے غوطہ خوروں یا موٹر بوٹس کے لیے غیر موزوں بنا دیتی ہے۔ ریسکیو 1122 کے پاس ایک روپ گن موجود ہے جو 100 میٹر تک رسی پھینک سکتی ہے، لیکن اسے استعمال نہیں کیا جا سکا کیونکہ دریا کے پار کوئی اینکر پوائنٹ موجود نہیں تھا۔








