بے حسوں کے قبرستان لاہور میں 68 افراد کی خود کشی کا نوحہ

خودکشی کا افسوسناک واقعہ

لاہور کے دبنگ رپورٹر محمد عمیر نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ پر ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ "لاہور میں رواں سال معاشی حالات، گھریلو جھگڑوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر اب تک 68 افراد نے خود کشی کی ہے، جن میں 44 مرد اور 24 خواتین شامل ہیں"۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کے ٹیرف پر 90 دن کا وقفہ دینے کے اعلان پر یورپی یونین نے بڑا قدم اٹھالیا

معاشی بدحالی کی حقیقت

اس ٹویٹ کو پڑھ کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ یہ کوئی افسانہ یا جذباتی ناول کا کردار نہیں۔ یہ لاہور کے وہ باسی ہیں جنہوں نے معاشی بدحالی، روزگار کی کمی، پیٹ کی آگ اور سماج کے طعنوں سے تنگ آ کر زندگی کو خیر باد کہہ دیا۔ 68 انسان، 68 سانسیں، 68 خواب اور ہم سب تماشائی ہیں۔ نہ ہم نے کسی کی چیخ سنی، نہ کسی کے آنسو محسوس کیے۔

یہ بھی پڑھیں: آسٹریلیا سے پہلی شکست کے بعد کپتان محمد رضوان کی گفتگو

لاہور کی حالت

لاہور، جو کل تک زندہ دلوں کا شہر تھا، آج بے حسوں کا قبرستان بنتا جا رہا ہے۔ یہاں کبھی محبت کا بازار گرم تھا، آج قرض کے نوٹس دیواروں پر چپکے ہوئے ہیں۔ ہر چہرے پر اضطراب، ہر آنکھ میں سوال، ہر لب پر آہ ہے۔ جب انسان کی عزت کا سوال دو وقت کی روٹی سے ٹکرا جائے تو زندگی کو ختم کرنے کے بارے میں سوچنے میں دیر نہیں لگتی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر ذاکر نائیک کی دریائے نیل میں تیراکی، 165 فٹ کی بلندی سے چھلانگ

خودکشی کے اسباب

66 لوگ جو اب ہم میں نہیں رہے، ان کی فائلیں شاید کسی تھانے کی میز پر پڑی ہوں گی۔ چند سطریں ہوں گی "گھریلو جھگڑا، ذہنی دباؤ، مالی پریشانی" اور پھر 'کیس بند' کی مہر، مگر ان سوالات کا کیا؟ وہ جوان بیٹا، وہ باپ، وہ خاتون، وہ بزرگ — ان سب کی کہانیاں سننے کے لیے کسی کی ضرورت نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نریندر مودی کی سیاسی زندگی کے دن پورے ہو چکے ہیں، بھارت ایس سی او میں اپنا جھوٹا موقف نہیں منوا سکا:دفاع خواجہ آصف

ریاست کی بے حسی

ان سب کے ماتھے پر "خودکشی" کا لیبل لگا دیا گیا مگر ریاست کے ماتھے پر "شرمندگی" کا کوئی لفظ نہیں۔ جب ریاست خودکشی کے اسباب خود پیدا کرے، تو کون حرام ہے؟ جس زندگی کو چھین رہا ہے یا جو خود سے زندگی چھین رہا ہے؟

یہ بھی پڑھیں: ماموند عمر خیل قبائل کے دو گروپوں میں 31سال بعد صلح ہوگئی

معاشی تباہی کی تصویر

معاشی تباہی صرف جیب نہیں خالی کرتی، رشتے بھی توڑ دیتی ہے۔ جب بیٹے میں پڑھائی کی استطاعت نہ ہو، تو محبت ختم ہو جاتی ہے۔ اور یہ سب حکمران ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر ترقی کے افسانے لکھتے ہیں۔ یہ کیسا نظام ہے کہ زندہ رہنے کی اجازت صرف ٹیکس ادا کرنے کی صورت میں ملتی ہے؟

یہ بھی پڑھیں: جیت کی جانب دوڑتے زمبابوے کے کھلاڑی ایک انچ کی قلیل فاصلے پر پویلین کی طرف مڑ گئے

انسانیت کا عدم احساس

کیا کبھی کسی اسمبلی میں ان 68 افراد کا ذکر ہوا؟ کیا کسی وزیر نے سوال اٹھایا کہ یہ لوگ کیوں مرے؟ ہم لاشوں پر تقریریں کرتے ہیں، مگر ان لوگوں کی مدد نہیں کرتے۔ عجب المیہ ہے کہ انسانوں کے دکھوں کا کوئی علاج نہیں ہے، مگر جانوروں کے لیے ہسپتال مختص ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: دوسرا ٹی 20؛زمبابوے کیخلاف قومی سکواڈ کا اعلان، کیا تبدیلی کی گئیں؟جانیے

عملی اقدامات کی ضرورت

ہمیں اجتماعی طور پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہم ایسی ریاست چاہتے ہیں جہاں تعلیم، علاج اور انصاف صرف امیر کے لیے ہو؟ اگر نہیں، تو ہمیں عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ریاست کو خودکشی کے پیچھے چھپی کہانیوں کا خیال رکھنا ہوگا اور لوگوں کی معاشی حالت بہتر کرنی ہوگی۔

خودکشی کا طویل اذیت

خودکشی صرف ایک لمحہ نہیں، یہ ایک طویل اذیت کا انجام ہوتا ہے۔ ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا، بصورت دیگر آنے والے وقت میں یہ تعداد 68 سے 680 یا 6800 تک جا سکتی ہے۔ اور پھر شاید ہم میں سے کوئی ایک، اخبار کی ایک لائن بن کر رہ جائے۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Categories: بلاگ

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...