بے حسوں کے قبرستان لاہور میں 68 افراد کی خود کشی کا نوحہ

خودکشی کا افسوسناک واقعہ
لاہور کے دبنگ رپورٹر محمد عمیر نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ پر ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ "لاہور میں رواں سال معاشی حالات، گھریلو جھگڑوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر اب تک 68 افراد نے خود کشی کی ہے، جن میں 44 مرد اور 24 خواتین شامل ہیں"۔
یہ بھی پڑھیں: روس اور ایران میں 20 سالہ معاہدہ طے پاگیا
معاشی بدحالی کی حقیقت
اس ٹویٹ کو پڑھ کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ یہ کوئی افسانہ یا جذباتی ناول کا کردار نہیں۔ یہ لاہور کے وہ باسی ہیں جنہوں نے معاشی بدحالی، روزگار کی کمی، پیٹ کی آگ اور سماج کے طعنوں سے تنگ آ کر زندگی کو خیر باد کہہ دیا۔ 68 انسان، 68 سانسیں، 68 خواب اور ہم سب تماشائی ہیں۔ نہ ہم نے کسی کی چیخ سنی، نہ کسی کے آنسو محسوس کیے۔
یہ بھی پڑھیں: عدلیہ حکومت کے تابع نہیں ہونی چاہئے،شاہد خاقان عباسی
لاہور کی حالت
لاہور، جو کل تک زندہ دلوں کا شہر تھا، آج بے حسوں کا قبرستان بنتا جا رہا ہے۔ یہاں کبھی محبت کا بازار گرم تھا، آج قرض کے نوٹس دیواروں پر چپکے ہوئے ہیں۔ ہر چہرے پر اضطراب، ہر آنکھ میں سوال، ہر لب پر آہ ہے۔ جب انسان کی عزت کا سوال دو وقت کی روٹی سے ٹکرا جائے تو زندگی کو ختم کرنے کے بارے میں سوچنے میں دیر نہیں لگتی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے بھارت کے مزید 6 ڈرونز تباہ کر دیئے : سیکیورٹی ذرائع
خودکشی کے اسباب
66 لوگ جو اب ہم میں نہیں رہے، ان کی فائلیں شاید کسی تھانے کی میز پر پڑی ہوں گی۔ چند سطریں ہوں گی "گھریلو جھگڑا، ذہنی دباؤ، مالی پریشانی" اور پھر 'کیس بند' کی مہر، مگر ان سوالات کا کیا؟ وہ جوان بیٹا، وہ باپ، وہ خاتون، وہ بزرگ — ان سب کی کہانیاں سننے کے لیے کسی کی ضرورت نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور پولیس منشیات فروشوں کی سہولت کار؟ سینئر صحافی نے انتہائی سنگین انکشاف کردیا
ریاست کی بے حسی
ان سب کے ماتھے پر "خودکشی" کا لیبل لگا دیا گیا مگر ریاست کے ماتھے پر "شرمندگی" کا کوئی لفظ نہیں۔ جب ریاست خودکشی کے اسباب خود پیدا کرے، تو کون حرام ہے؟ جس زندگی کو چھین رہا ہے یا جو خود سے زندگی چھین رہا ہے؟
یہ بھی پڑھیں: مناہل ملک اور امشا کے بعد ایک اورسیلیبریٹی کی فحش ویڈیو لیک ہو گئی
معاشی تباہی کی تصویر
معاشی تباہی صرف جیب نہیں خالی کرتی، رشتے بھی توڑ دیتی ہے۔ جب بیٹے میں پڑھائی کی استطاعت نہ ہو، تو محبت ختم ہو جاتی ہے۔ اور یہ سب حکمران ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر ترقی کے افسانے لکھتے ہیں۔ یہ کیسا نظام ہے کہ زندہ رہنے کی اجازت صرف ٹیکس ادا کرنے کی صورت میں ملتی ہے؟
یہ بھی پڑھیں: ٹیکس ریٹ بڑھانے کے باوجود جائیداد کی خرید و فروخت پر صرف 33 ارب اضافی ٹیکس جمع ہوسکا
انسانیت کا عدم احساس
کیا کبھی کسی اسمبلی میں ان 68 افراد کا ذکر ہوا؟ کیا کسی وزیر نے سوال اٹھایا کہ یہ لوگ کیوں مرے؟ ہم لاشوں پر تقریریں کرتے ہیں، مگر ان لوگوں کی مدد نہیں کرتے۔ عجب المیہ ہے کہ انسانوں کے دکھوں کا کوئی علاج نہیں ہے، مگر جانوروں کے لیے ہسپتال مختص ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: صفدرآباد: جائیداد میں حصہ مانگنے پر بھائی نے بیوی کے ساتھ مل کر بہن کو قتل کردیا۔
عملی اقدامات کی ضرورت
ہمیں اجتماعی طور پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہم ایسی ریاست چاہتے ہیں جہاں تعلیم، علاج اور انصاف صرف امیر کے لیے ہو؟ اگر نہیں، تو ہمیں عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ریاست کو خودکشی کے پیچھے چھپی کہانیوں کا خیال رکھنا ہوگا اور لوگوں کی معاشی حالت بہتر کرنی ہوگی۔
خودکشی کا طویل اذیت
خودکشی صرف ایک لمحہ نہیں، یہ ایک طویل اذیت کا انجام ہوتا ہے۔ ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا، بصورت دیگر آنے والے وقت میں یہ تعداد 68 سے 680 یا 6800 تک جا سکتی ہے۔ اور پھر شاید ہم میں سے کوئی ایک، اخبار کی ایک لائن بن کر رہ جائے۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔