کوٹری سے لاڑکانہ تک کوئی رکاوٹ نہیں تھی، یہ لائن پٹارو، جامشورو، سیہون شریف، دادو اور موہنجو ڈارو سے ہوتی ہوئی لاڑکانہ جنکشن پہنچتی ہے۔

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 175
پہلے مرحلے میں اس لائن کو کوٹری سے لاڑکانہ تک پْرانے اور جانے پہچانے راستے پر جانا تھا۔ یہ لائن بہت پہلے بلکہ پچھلی صدی سے ہی نہ صرف موجود تھی بلکہ مسلسل استعمال میں بھی تھی۔ جب کوٹری کا پل ابھی بنا نہیں تھا تو کراچی سے آنے والی گاڑیاں سکھر تک پہنچنے کے لیے یہ راستہ یعنی کوٹری - لاڑکانہ - سکھر استعمال کرتی رہی تھیں۔ یہ لائن پہلے ہی سے براڈ گیج پر تھی اور پاکستان ریلوے کے مرکزی نظام سے منسلک بھی تھی۔ لہٰذا پہلے مرحلے پر، یعنی کوٹری سے لاڑکانہ تک کوئی رکاوٹ موجود نہیں تھی۔
کوٹری سے نکل کر یہ لائن، سندھ یونیورسٹی، پٹارو، جامشورو، سیہون شریف، دادو اور موہنجو ڈارو سے ہوتی ہوئی لاڑکانہ جنکشن پہنچتی ہے۔ یہ سارے ہی قصبے بہت اہمیت کے حامل ہیں حالانکہ اس دوران راستے میں کئی چھوٹے اسٹیشن بھی آتے ہیں جو نسبتاً غیر معروف ہیں۔ سیاسی شخصیات کے نام پر رکھے ہوئے کچھ اسٹیشن بھی ہیں۔ تاہم جو اپنے قدیم ناموں کے وجہ سے جانے جاتے ہیں ان کا مختصر سا تعارف کچھ اس طرح ہے:
جام شورو / پٹارو کالج
جام شورو حیدرآباد ڈویڑن کا ایک ضلع ہے جو دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر واقع ہے۔ یہاں ضلع کی سطح کے تمام سرکاری دفاتر اور ادارے موجود ہیں۔ یہاں 3 یونیورسٹیوں، یعنی سندھ یونیورسٹی، مہران انجینئرنگ یونیورسٹی اور لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کے علاوہ اعلیٰ درجے کے اسکول اور کالج بھی ہیں جن میں سب سے نمایاں نام پٹارو کیڈٹ کالج کا ہے۔ یہ کیڈٹ کالج 1957ء میں قائم ہوا تھا، اور یہاں کے طلباء کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کالج کا نظام و انصرام مسلح افواج کی طرز پر انتہائی منظم طریقے سے چلایا جاتا ہے۔ یہاں کے فارغ التحصیل طلبا زیادہ تر پاکستان کی مسلح افواج میں خدمات انجام دیتے ہیں اور اکثر بہت بڑے عہدوں پر پہنچتے ہیں۔
سیہون، شہباز قلندر
ہو لال میری پت رکھیو بھلا، جھولے لالن سندھڑی دا، سیہون دا، سخی شہباز قلندر
سیہون میں ہند و پاکستان اور خصوصاً سندھ کے مشہور صوفی بزرگ لال شہباز قلندر کا مزار ہے۔ یہاں سارا سال ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند مزار پر حاضری دینے کے لیے پہنچتے ہیں، خصوصاً ان کے عرس کے دنوں میں تو سارے پاکستان سے زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ یہاں کی دھمال بہت جانی پہچانی ہے جو سندھی، سرائیکی اور پنجابی زبان کے راگوں پر مشتمل ہوتی ہے، جس کے ساتھ الاپ اٹھا کر ایک مخصوص رقص کیا جاتا ہے۔ یہاں مرد اور خواتین بے خود ہو کر مزار کے احاطے میں والہانہ رقص کیا کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔