نظام کو آگے بڑھانے پر اتفاق ہو گیا تو ۔۔۔ ؟

تحریر
رائے حسنین
یہ بھی پڑھیں: دہشتگردوں کے مکمل خاتمے تک سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں جاری رہیں گی، صدر مملکت
سیاسی منظر نامہ
حالات کی کروٹ تو اس وقت سیاسی منظر نامی پر سب کو نظر آ رہی ہے اور یوں لگتا ہے اسٹیبلشمنٹ دوسرے مرحلے میں کوئی legitimate سیٹ اپ بنانے کا پروگرام رکھتی ہے۔ جبکہ ’’صاحب‘‘ کے دورۂ امریکہ کے بعد پروگرام پر عمل کا آغاز ہوگیا۔ لگتا ہے چوھدری نثار سے شہباز کی ملاقات کو مذاکرات کا ابتدائیہ کہا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بینک ڈیپازٹس اور بچت سکیموں پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز
پی ٹی آئی کے مطالبات
لیکن چند ہی گھنٹوں بعد لاہور سے پی ٹی آئی کے اسیر رہنماؤں کا پارٹی کے وائس چیئرین سمیت ایک مطالبات سے بھرپور خط منظر عام پر آتا ہے۔ اس میں بھی اصل نکتہ بانی پی ٹی آئی کو سیاسی لوگوں سے مذاکرات پر زور تھا۔ پھر آج پی ٹی آئی کے اسد قیصر کی جانب سے قومی حکومت کے مطالبے کے ساتھ مذاکرات کی میں شمولیت کی حامی بھی بھر لی گئی۔ اسد قیصر پی ٹی آئی کے معتدل مزاج سیاستدان تصور کیے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایران ہتھیار نہیں ڈالے گا، میزائل حملوں کی تعداد نے عوام کو حیران کر دیا، اسرائیلی صحافی کا انکشاف
مستقبل کے امکانات
اب کیا ہوگا؟ کیا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ قومی حکومت کے مطالبے کو مان جائیں گے؟ کیا قومی حکومت کے قیام سے ملکی سیاسی معاشی نظام اور عام آدمی کو فرق پڑے گا؟ سیاسی پنڈت کہتے ہیں کہ حکومت بھی مان جائے، اگر نظام کو آگے بڑھانے پر اتفاق ہو تو۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی ترمیم کا معاملہ ،سینیٹ کے اجلاس کا وقت تبدیل کر دیا گیا
قومی حکومت کے فوائد
قومی حکومت بننا ملک کے لئے انتہائی فائدہ مند ہو گا۔ سیاسی استحکام آئے گا، اسمبلیوں کے اندر ’’عضوِ معطل‘‘ پی ٹی آئی جس کا کام فی الحال chaos پیدا کرنے ہی ہے، وہ بھی ریاست کے لیے کام کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: نور خان ایئر بیس چکلالہ کے قریب حملے کی کوشش کو ناکام بنا دیا گیا
پی ٹی آئی کے فائدے
جہاں اسکا فائدہ پی ٹی آئی کو ہوگا کہ قومی دھارے میں شامل ہو کر اپنے منشور کو کسی نہ کسی حد تک آگے بڑھا پائے گی، وہاں حکومتی اتحاد اس سے بہت فائدہ اٹھا سکے گا۔ مہنگائی اور دیگر ریاستی امور پر سے تنقید کا سامنا کم کرنا پڑے گا، کیونکہ اب تو چور حلال ہو گئے ہیں انکے ساتھ مل کر کام کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی صدارتی انتخابات 2024: وہ ریاست جہاں مشرق وسطیٰ کی جنگ نتائج پر اثر انداز ہو سکتی ہے
بین الاقوامی ڈیلز
ریاست کو یہ بھی فائدہ ہوگا کہ اہم بین الاقوامی ڈیلز بغیر کسی تنقید کے شروع و مکمل ہو سکیں گی۔
یہ بھی پڑھیں: بوستان جنکشن سے اگلا اسٹیشن ”یارو“ ہے، اس کو دیکھتے ہی گانا یاد آجاتا ہے ”یارو مجھے معاف کرو میں نشے میں ہوں“ نشہ تو یارو کے قریب بھی ہے۔
عمران خان کا کردار
مگر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان قومی حکومت کو تسلیم کریں گے؟ اسکا جواب مشکل ہے، لیکن یہ طے ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر سے مذاکرات کے لیے ایک بڑا گروپ تیار ہے۔ اگر عمران نہ مانے تو پھر پی ٹی آئی ایک الگ دھڑا کھل کر سامنے آ جائے گا اور خان صاحب ہٹ دھرمی کی سزا بھگتتے رہیں گے۔
خلاصہ
سوال یہ بھی ہے کہ کیا عمران کو مائنس کر کے اور پی ٹی کے اہم دھڑے کو الگ کر کے اسٹیبلشمنٹ legitimate اور قابل قبول حکومت بنا پائے گی؟ کیا عوام بالخصوص پی ٹی آئی کے سپورٹرز کے لیے ایسا نظام قابل قبول ہو گا؟
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں