پی ٹی آئی میں اختلافات، کوٹ لکھیت جیل کے اسیر رہنماؤں کی مذاکرات کی حمایت ، رکاوٹ صرف عمران خان ہیں: انصار عباسی

سیاسی منظرنامے میں تبدیلی
اسلام آباد (ویب ڈیسک) سینئر صحافی انصار عباسی نے لکھا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت میں اندرونی اختلافات کی کھل کر عکاسی ہونے کے بعد ملکی سیاست میں ایک نئی گنجائش پیدا ہو گئی ہے۔ اگرچہ ملک کا سیاسی بحث اب بھی عمران خان سے جڑا ہوا ہے، لیکن ایک اہم پیشرفت کے طور پر کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کے 5 سینئر رہنماؤں نے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان فوری مذاکرات کی حمایت میں ایک خط پر دستخط کیے ہیں۔ خط میں اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کی بھی تائید کی گئی ہے، لیکن نمایاں زور سیاسی جماعتوں کے درمیان براہ راست گفتگو پر دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Israeli Aggression Against Pakistan via Imran Khan, Claims Defense Minister Khawaja Asif
سیاسی جماعتوں کا موقف
حکومت میں شامل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پہلے ہی سیاسی قوتوں کے مابین مذاکرات کے حق میں ہیں۔ روزنامہ جنگ کے لیے انصار عباسی نے لکھا کہ ایک لیگی سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ جمہوریت کے تسلسل کو یقینی بنانے کی خاطر ضروری ہے کہ تمام فریقین ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھیں اور مذاکرات کی میز پر مل بیٹھیں۔ حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ ایسی بات چیت کی خواہشمند ہے جس میں جمہوری ضابطۂ اخلاق مرتب کیا جا سکے اور مسلسل سیاسی کشمکش سے بچا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: بجٹ کی تیاریاں، چھوٹی گاڑیوں پر سیلز ٹیکس میں اضافے کی تجویز پر حکومت نے فیصلہ سنا دیا
پی ٹی آئی کی قیادت کی رائے
پیپلز پارٹی بھی مفاہمت کی حامی رہی ہے۔ عمران خان اگرچہ ماضی میں حکومتی اتحاد سے مذاکرات کو مسترد کرتے رہے ہیں، تاہم پی ٹی آئی کی سینئر قیادت اب سمجھتی ہے کہ بات چیت ناگزیر ہے اور اس کا وقت بھی آ چکا ہے۔ ایک اہم رہنما نے یہ بھی بتایا کہ پارٹی بات چیت کی حمایت دو بنیادی شرائط پر کرے گی: مذاکرات سے قبل کوئی پیشگی شرط نہ رکھی جائے اور اس عمل کو مصنوعی ڈیڈ لائنز سے محدود نہ کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: سول ہسپتال حیدرآباد کے سرجیکل آئی سی یو کی لفٹ میں لاش پھنس گئی
سیاسی متحد ہونے کی ضرورت
نون کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے پی ٹی آئی رہنماؤں کا جیل سے جاری کردہ خط ایک دانشمندانہ اقدام قرار دیا۔ سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ اگر دشمن ممالک آپس میں بات کر سکتے ہیں تو ملک کی سیاسی قوتوں کے درمیان مذاکرات کیوں نہیں ہو سکتے؟ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پی ٹی آئی نے محرم الحرام کے بعد احتجاجی تحریک چلانے کی کوشش کی تو وہ شدید گرمی، تنظیمی کمزوری، اندرونی دھڑے بندی اور ریاستی مشینری کی مزاحمت کی وجہ سے ناکام ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بابر اعظم نے ویرات کوہلی کا ایک اور ریکارڈ توڑ دیا
عمران خان کا فیصلہ کن کردار
سعد رفیق نے ایک جامع اور جدید "چارٹر آف ڈیموکریسی" کی ضرورت پر بھی زور دیا، جس کے بغیر جمہوریت کا تسلسل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود، عمران خان کا کردار فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ حکومتی قیادت نے مذاکرات کی دعوت دی ہے، جیل میں قید پارٹی رہنما مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن حتمی اجازت اب بھی عمران خان کے فیصلے سے مشروط ہے۔
ماضی کی بات چیت
عمران خان ماضی میں مذاکرات کی اجازت دے چکے ہیں، لیکن پھر خود ہی شرائط عائد کر کے محدود وقت دیا، اور ڈیڈ لائن ختم ہونے سے پہلے ہی بات چیت کا سلسلہ منقطع کر دیا۔ بعد ازاں، انہوں نے واضح کیا کہ وہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کریں گے، لیکن اسٹیبلشمنٹ فی الحال اس میں دلچسپی لیتی نظر نہیں آ رہی۔ پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ جب تک بات چیت بغیر شرائط اور ڈیڈ لائنز کے نہ ہو، اس کا فائدہ نہیں، لیکن اصل اختیار بہرحال عمران خان کے پاس ہے۔