افسوس پیسے کی چمک، رشتوں کی قدر اور احساس بھی بھلا دیتی، باہر جانے والوں میں اکثر یت غریب گھرانوں سے تھی، وہاں جاکر جم کر محنت کرتے۔

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 219
اس واقعے کی تفصیلات
ارشد کا قصور۔۔زر مبادلہ خوب؛ ان کی حب الوطنی بھی بمثل تھی۔ اس دور میں فرنچ ایمبیسی فرانس میں مستقل سکونت رکھنے والے پاکستانی شہریوں کی دستاویزات تصدیق کے لئے متعلقہ اے سی کو بھجواتی تھی۔ ایک بار ایک ہی شخص کے 6 بچوں کے پیدائش سرٹیفیکیٹ تصدیق کے لئے آئے۔ ریکارڈ منگوایا۔ پڑتال کی۔ پتہ چلا کہ رجسٹر تبدیل کر کے ان بچوں کے نام ایڈجسٹ کئے گئے تھے۔
تحقیقات کا آغاز
انہوں نے مجھے بلایا اور کہا؛ "یہ رجسٹر دیکھو۔ کیا یہ ریکارڈ درست ہے۔" میرا جواب نفی میں تھا۔ بولے؛ "سیکرٹری یونین کونسل کے خلاف کیس تیار کرکے کل مجھے پیش کرو تاکہ ایسے شخص کو نوکری کا کوئی حق نہیں۔” میں اپنے دفتر آ گیا۔ دفتر پہنچا تو میرا سیکرٹری محمد اسلم اپنے دوست محمد ارشد کے ساتھ موجود تھا۔ اسی ارشد نے یہ ریکارڈ تیار کیا تھا۔
سفارش اور حقائق
اسلم نے سفارش کرتے کہا؛ "سر! ارشد کو بچا لیں۔ اللہ کے بعد آپ ہی اس کی مدد کر سکتے ہیں۔" میں نے جواب دیا؛ "ریکارڈ تمھارے سامنے ہے۔ سب بعد میں تیار ہوا۔" ارشد بولا؛ "سر! کسی اور بچے کا نہ تو نام کاٹا ہے نہ کوئی کوائف بدلے ہیں بس ان 6 بچوں کو 70 ہزار روپے لے کر ایڈجسٹ کیا تھا۔(93ء میں یہ بڑی رقم تھی اس وقت میری تنخواہ 3 ہزار روپے ماہوار تھی۔) 4 بچے درخواست دہندہ کے ہی ہیں جبکہ باقی 2 بچوں میں ایک اس کی بہن کا اور ایک اس کے بھائی کا بیٹا ہے۔"
معاشرتی مسئلہ
جیساکہ اوپر ذکر ہو چکا کھاریاں تحصیل کے تقریباً ہر گھر سے ایک آدمی یورپ کے کسی نہ کسی ملک ضرور سیٹیل تھا۔ بہت سے لوگ اپنے بہن بھائیوں کے بچوں کو اپنے بچے ظاہر کرکے ان کے بہتر مستقبل کے لئے اپنے ساتھ باہر لے گئے تھے۔ کچھ بے غیرت ٹائپ لوگ اپنی بہن یا ماں کو کاغذوں میں اپنی بیوی ظاہر کرکے بھی ساتھ لے گئے تھے۔ وہ عورتیں بھی خوشی خوشی چلی جاتی تھیں۔
غربت اور کام
افسوس پیسے کی چمک، رشتوں کی قدر اور احساس بھی بھلا دیتی تھی۔ باہر جانے والوں میں اکثر غریب گھرانوں سے تھی۔ وہاں جا کر بھوک اور غربت کے ستائے یہ افراد خوب جم کر محنت کرتے، ٹیکسی چلاتے، لاکھوں کماتے، لاکھوں اجاڑتے لیکن پاکستان میں اپنے گھر والوں کے دن پھیر دیتے تھے۔ قریبی رشتہ داروں کو بھی ساتھ لیجاتے اور پورا خاندان ہی خوشحال ہو جاتا۔
آخری تبصرہ
یہ بھی ایسا ہی ایک کیس تھا۔ سہنانے مستقبل کے لئے اپنی بہن اور بھائی کے بچوں کو بھی فرانس لے جانا چاہ رہا تھا۔ سیکرٹری یونین کونسل بھی اسی معاشرے کا حصہ تھے۔ لالچ میں آ کے ایسا کام کر جاتے تھے اور بعض اوقات اپنے بچے کو بھی اسی طرح یورپ کے کسی ملک سیٹل کروا دیتے تھے۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔