ٹھنڈ بڑھ گئی تھی، رات کے 2 بجے تھے، شکار کی سنسنی نے جسم میں خون گرما دیا، ہم اگلے شکار کی تلاش میں دوسرے بیلے میں گھسے اور بھٹک گئے۔

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 223
نئی شکار کی تلاش
ہم پہلے معرکے کے بعد دوبارہ جیپ میں سوار ہوئے اور اگلے شکار کی تلاش میں پھرنے لگے۔ جوں جوں رات آگے بڑھ رہی تھی توں توں سردی کی شدت بھی بڑھ رہی تھی۔ چاندنی اور بکھر گئی تھی، بیلے پر چھائی دھند ذرا گہری ہو گئی تھی جس کا تصور گھر بیٹھے ممکن نہیں۔ کرم داد مہارت سے سرچ لائیٹ میں نیا شکار تلاش کر رہا تھا کہ اس کے راڈار پر 2 اور شکار دکھائی دئیے۔
گاڑی کا پیچھا
عبداللہ نے جیپ ان کے پیچھے دوڑا دی۔ دونوں ہجم میں کافی بڑے تھے۔ باگڑی کا نشانہ چونکا اور شکار تیزی سے دوڑتا گاؤں کی کھلی سی گلی میں جا نکلا۔ باگڑی دوسرا فائر کرنے لگاتو عبداللہ نے یہ کہہ کر روک دیا کہ؛ "سر! گاؤں سے باہر نکل کر گولی چلائیں۔ گاؤں میں چلائی تو کہیں لوگ چور ڈاکو سمجھ کر اپنے ہتھیار ہی نہ اٹھا لیں۔" جیسے ہی گاؤں سے باہر پہنچے باگڑی نے نشست لی ہی تھی کہ تیس پنتیس کلو میٹر کی رفتار سے بھاگتا شکار دائیں کو تیزی سے گھوما۔
شکار کا نتیجہ
میں حیران رہ گیا کہ یہ جانور اتنی تیزی سے گھوم سکتا تھا۔ بچپن کی سنی بات کہ یہ تیزی سے مڑ نہیں سکتا میں اپنی آنکھوں کے سامنے غلط ہوتی دیکھ رہا تھا۔ یہ درمیانے سائز کے گدھے جتنا تو ضرور ہو گا۔ عبداللہ کہنے لگا؛ "سر! یہ پرانا اور گھا نگڑ ہے۔ کئی بار شکاریوں سے بچ نکلا۔ بس اس کی تھوڑی ہی زندگی باقی تھی۔" 2 کارتوس یکے بعد دیگرے فائر ہوئے۔ اس کی رفتار کم ہو گئی۔ باگڑی نے مجھے کہا؛ "شہزاد صاحب فائر کرو۔" میرا چلایا پہلا کارتوس ناجانے کہاں چلا گیا۔ خیر دوسرا فائر کیا تو یہ گرتے شکار کو جا لگا۔ میرا تکا کام آ گیا تھا وہ گرا اور اپنی دم ہمارے حوالے کر گیا۔
راستے سے بھٹکنا
ٹھنڈ بھی بہت بڑھ گئی تھی۔ رات کے 2 بجے تھے۔ شکار کے لطف اور سنسنی نے جسم میں خون گرما دیا تھا۔ ہم اگلے شکار کی تلاش میں دوسرے بیلے میں گھسے اور راہ سے بھٹک گئے۔ قریب ہی پانی کا ذخیرہ تھا اور سردی عروج پر۔ یخ ہوا گولی کی طرح جسم کے آر پار ہو رہی تھی۔ ہونٹ ٹھنڈ سے موسیقی بجانے لگے تھے۔
راہ کی مشکلات
اس زمانے میں یہ بیلے اشتہاریوں کی پناہ گاہیں بھی تھیں البتہ ان بیلوں میں وہ ٹھکانے بدلتیں رہتے تھے۔ جس طرف جیپ گھوماتے گھوماتے پانی کے ذخیرے کی طرف ہی نکلتے۔ جیپ کے شیشے اوپر کر کے سردی سے تو بچ گئے مگر راہ کی لاش میں پریشانی ہونے لگی تھی۔ عبداللہ گائیڈ پر ناراض ہو رہا تھا۔ راستہ تلاش کرتے گھنٹہ بھر سے زیادہ کا وقت گزر گیا تھا۔
چاند کی روشنی
چاند بھی اپنا تین تہائی سفر طے کر چکا تھا۔ آسمان پر چھانے والی ہلکی دھند نے اس کے گرد باریک سی چلمن بنا ڈالی تھی۔ چاند کا حسن اس دھند میں آنکھ مچولی کھیل رہا تھا اور راستہ ہم سے گم ہو چکا تھا۔ تھک ہار کے جیپ کھڑی کی، باہر نکلے۔ گائیڈ اور عبداللہ چاند ستاروں کی چال سے سمت کا اندازہ کرنے لگے۔
گاؤں کی تلاش
عبداللہ اب گائیڈ کے اشاروں پر جیپ دائیں بائیں گھوماتے بلا آخر پکی سڑک پر جا نکلا۔ یہ "ملکہ" گاؤں تھا۔ قریب ہی نظر آنے والی آگ کی طرف بڑھے جہاں یونین کونسل کے دفتر میں گاؤں کا چوکیدار لکڑی جلائے آگ تاپ رہا تھا۔ ہم بھی اس کے قریب جا بیٹھے۔
آگ کا لطف
اس سرد موسم میں ہم تقریباً 3 گھنٹے تک گھنے بیلے میں راہ تلاش کرتے رہے تھے۔ ٹھنڈ سے برا حال تھا۔ پچھلے 2 گھنٹوں میں جسم میں سردی کی لہر اتر کر جسم کو کپکپانے لگی تھی۔ سردی سے بے جان ہوتے جسموں میں آگ توانائی پھونکنے لگی تھی۔ پہلے شکار کی سنسنی تھی اور پھر راہ سے بھٹکنے کی خواری سے دل کچھ اچاٹ ہوا تھا۔ آدھ گھنٹہ اس آگ کے پاس بیٹھ کر جب میں گھر پہنچا تو فجر کی سنائی دیتی اذان نماز کی طرف بلا رہی تھیں۔
اختتام
“نماز نیند سے بہتر ہے۔ نماز نیند سے بہتر ہے۔” بے شک اللہ کے پسندیدہ بندے ہی اس پکار پر گرمی ہو یا سردی لبیک کہتے مسجد کا رخ کرتے ہیں۔ (جاری ہے)
نوٹ:
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔