بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کو سرکاری ذرائع سے ترسیلات زر لانے پر انعامی رقم میں کمی کا فیصلہ

اسلام آباد میں سٹیٹ بینک کی نئی پالیسی
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو آگاہ کیا ہے کہ ریکارڈ 38.3 ارب ڈالر کی ترسیلات زر کے باوجود، حکومت نے بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کو سرکاری ذرائع سے ترسیلات زر لانے پر دی جانے والی انعامی رقم میں کمی کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جنوبی وزیرستان میں بچوں کی گاڑی پر فائرنگ
انعامی رقم میں کمی
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر عنایت حسین نے کمیٹی کو بتایا کہ انعامی رقم کی ادائیگی کا ڈھانچہ، جو پہلے ہر اضافی ترسیل پر 20، 27 اور 35 ریال تھا، اب تمام سائز کی ترسیلات پر ایک مقررہ شرح 20 ریال کر دیا گیا ہے، جب کہ کم از کم اہل ترسیل کی حد کو 100 ڈالر سے بڑھا کر 200 ڈالر کر دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: محکمہ داخلہ پنجاب کا مرکزی کمیٹی روم خالد شیر دل شہید کے نام منسوب
ترسیلات زر کی تاریخی ترقی
سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت اجلاس نے نوٹ کیا کہ اگرچہ پاکستان ریمٹینس انیشی ایٹو (پی آر آئی) کے 10-2009 میں آغاز کے بعد ترسیلات زر تقریباً 18 سے 19 ارب ڈالر سے بڑھ کر 38.3 ارب ڈالر ہو گئی ہیں، لیکن مالیاتی اداروں کو سالانہ انعامی ادائیگیاں غیر متناسب طور پر 15 سے 16 ارب روپے سے بڑھ کر 130 ارب روپے تک پہنچ گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں معمولی جھگڑے پر 55 سالہ شخص کو قتل کرنے والا ملزم گرفتار
ترغیبات میں کمی کے اثرات
انہوں نے کہا کہ اس معاملے کا جائزہ لینا ضروری ہے اور زیادہ فوائد ترسیل کرنے والے کو دیے جانے چاہئیں تاکہ باضابطہ ذرائع کی حوصلہ افزائی ہو۔ عنایت حسین نے لاگت سے متعلق خدشات کا اعتراف کیا، لیکن خبردار کیا کہ ترغیبات میں کمی سے ترسیلات دوبارہ غیر رسمی ذرائع کی طرف جا سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے ورچوئل اثاثہ جات ایکٹ 2025 کی منظوری دے دی، پہلی بار ریگولیٹری اتھارٹی قائم
نیا ترغیبی ماڈل
اگست 2024 میں، حکومت نے باضابطہ ترسیلات کے لیے ایک نیا ترغیبی ماڈل متعارف کرایا تھا، جس میں مقررہ اور متغیر انعامات کو یکجا کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: عسکری ٹاور جلاؤ گھیراؤ کیس ، شاہ محمود قریشی پر 2 دسمبر کو فرد جرم عائد ہو گی
انعامات کے تفصیلی نظام
نظرثانی شدہ فریم ورک کے تحت، بینکوں کو 100 ڈالر سے زائد ہر ترسیل پر 20 ریال دیے گئے، جب کہ 10 فیصد یا 100 ملین ڈالر کی ترقی تک اضافی ہر ترسیل پر 8 ریال اور اس حد سے تجاوز پر مزید 7 ریال دیے گئے، جس سے بہترین کارکردگی دکھانے والے اداروں کے لیے مجموعی انعام 35 ریال تک پہنچ گیا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے الیکٹرک وہیکلز پالیسی بنالی، زبردست پیشکش کر دی
بینکوں کے ممکنہ بدعنوانی کے مسائل
عنایت حسین نے بینکوں کی جانب سے ممکنہ بدعنوانی سے بھی خبردار کیا، اور کہا کہ انعامی میکنزم مجموعی حجم پر نہیں بلکہ انفرادی لین دین پر مبنی ہے، جس سے بڑی ترسیلات کو مصنوعی طور پر چھوٹے حصوں میں تقسیم کرنے کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نازیبا سلوک پر مس انگلینڈ بھارت میں ہونیوالا ’مس ورلڈ مقابلہ‘ چھوڑ کر چلی گئیں۔
غیر ملکی ڈیبٹ کارڈز کا استعمال
کمیٹی نے غیر ملکی ڈیبٹ کارڈز کے وسیع استعمال پر بھی بات کی اور کمرشل بینکوں پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے مقامی ادائیگی نیٹ ورک، پے پاک (PayPak)، کو ترجیح دیں تاکہ غیر ضروری زرمبادلہ کے اخراجات کو روکا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا پی ٹی آئی کا ہر ایم این اے 10 ہزار لوگ اپنی جیب میں ڈال کر لائے گا؟ رانا ثناء اللہ
سینیٹ کی سفارشات
سینیٹرز نے تنقید کی کہ بینک اکاؤنٹ کھولتے وقت صارفین کو پے پاک کا آپشن نہیں دیتے۔ انہوں نے سفارش کی کہ تمام ڈیبٹ کارڈ درخواست دہندگان کے لیے پے پاک کے آپشن کی شمولیت لازمی کی جائے، اور یہ بھی تجویز دی کہ ملکی اور بین الاقوامی لین دین کے لیے پے پاک اور بین الاقوامی کارڈز کو بیک وقت استعمال کی اجازت دی جائے۔
اختتامی نوٹس
عنایت حسین نے کہا کہ اس معاملے میں تمام آپریٹرز، بشمول غیر ملکی کمپنیوں کے لیے مساوی مواقع کو یقینی بنانے کے لیے متوازن نقطہ نظر اپنانا ضروری ہے، تاہم سینیٹرز نے مؤقف اختیار کیا کہ بینک مؤثر طور پر صارفین کو بین الاقوامی نیٹ ورکس کی طرف مائل کر رہے ہیں، جس سے زرمبادلہ کے نقصانات ہو رہے ہیں۔ کمیٹی نے ایران کے ساتھ بارٹر تجارت، ایف بی آر انعامات کے الزامات، اور ہراسانی سے متعلق دعوؤں جیسے دیگر کئی معاملات پر بھی غور کیا۔