فیملی کیسز میں معاوضوں کی ادائیگی کی اپیلیں سپریم کورٹ نہیں آنی چاہئیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے فیملی معاملات سے متعلق مقدمات کی سماعت کے دوران واضح ریمارکس دیئے ہیں کہ فیملی کیسز میں معاوضوں کی ادائیگی کی اپیلیں سپریم کورٹ میں نہیں آنی چاہئیں۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت کا موٹرسائیکلوں کی نمبر پلیٹس تبدیل کرنے کا حکم، شہریوں پر مالی بوجھ
فیملی کیسز کی سماعت
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے مختلف فیملی کیسز کی سماعت کی جس میں بچوں کے ماہانہ خرچے، جہیز کی واپسی اور دیگر معاملات زیر غور آئے۔
یہ بھی پڑھیں: میں پاکستان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہا ہوں، پاک امریکہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے: امریکی اعلیٰ عہدیدار ایرک مائیر
بچوں کے ماہانہ خرچے کا فیصلہ
ایک مقدمے میں درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ایک چھوٹے بچے کیلئے 25 ہزار روپے ماہانہ خرچہ بہت زیادہ ہے، اس پر جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیئے کہ ’اپنا بچہ ہے تو پچیس ہزار کچھ زیادہ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ثنا یوسف کے قاتل کی گرفتاری کے لیے پولیس نے کتنی سی سی ٹی وی ویڈیوز جمع کیں اور کتنی فون کالز کا تجزیہ کیا؟ آئی جی اسلام آباد کے اہم انکشافات
نچلی عدالت کے فیصلے کی توثیق
عدالت نے نچلی عدالت کی جانب سے مقرر کردہ 25 ہزار روپے ماہانہ خرچے کے فیصلے کیخلاف اپیل کو مسترد کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: صدر آصف زرداری سے وفاقی وزیر داخلہ کی ملاقات، قومی سلامتی کی صورتحال پر تبادلہ خیال
سپرئم کورٹ کی حدود
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فیملی کیسز میں معاوضوں کی ادائیگی سے متعلق اپیلیں سپریم کورٹ میں نہیں آنی چاہئیں، نچلی عدالتیں جو فیصلہ کرتی ہیں، وہیں معاملہ ختم ہو جانا چاہیے، سپریم کورٹ ان معمولی مالیاتی تنازعات میں مداخلت نہیں کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں زلزلے کے جھٹکے
جہیز برآمدگی کیس کی سماعت
دوسری جانب عدالت نے 7 سال پرانے جہیز برآمدگی کیس میں شہری شاہ رخ لودھی کی اپیل بھی مسترد کر دی۔
عدالت کی برہمی کا اظہار
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 2018 کا فیصلہ ہو چکا ہے، لیکن ابھی تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوا جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔ عدالت نے رجسٹرار آفس کو ہدایت دی کہ ٹرائل کورٹ کی عملدرآمد رپورٹ فوری طور پر سپریم کورٹ میں جمع کرائی جائے اور متعلقہ عدالت کو بھی حکم دیا کہ وہ فیصلے پر بلا تاخیر عملدرآمد یقینی بنائے۔