کیا عروج تھا، کیا زوال ہے۔۔۔آخری مغل بادشاہ کی پڑپوتی سلطانہ بیگم سڑک کنارے چائے کا کھوکھا لگانے پر مجبور ہوگئی۔

زندگی کا عرو ج و زوال
اسلام آباد (ویب ڈیسک) زندگی میں عرو ج و زوال معمول ہے اور مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی بہوسلطانہ بیگم اپنے شوہر کے انتقال کے بعد سڑک کنارے چائے کا کھوکھا لگانے پر مجبور ہوگئی تھیں لیکن پھر سڑک بننے کی وجہ سے وہ جگہ بھی چھوڑنا پڑی، یہ کہانی انہوں نے خود اپنی ایک ویڈیو میں بتائی۔
یہ بھی پڑھیں: کل قومی اسمبلی میں کیا کچھ پیش ہونے جا رہا ہے ۔۔۔؟ ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے بتا دیا
سلطانہ بیگم کی مشکلات
سلطانہ بیگم کا کہنا ہے کہ 1980ء میں شوہر کا انتقال ہوا تو چھ بچوں کے ساتھ بہت پریشان تھی، پیٹ بھرنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ گھر بیٹھے بہت مزدوری کی، روٹیاں بنا کر دیں، آٹا، دال، چاول بنایا، چوڑی بنانا شروع کی، لیکن آمدن اتنی نہیں تھی کہ گزارا ہوسکے۔
یہ بھی پڑھیں: ناقص پالیسیاں قومی خزانے کو اربوں روپے میں پڑرہی ہیں: گوہر اعجاز
چائے کی دکان کا قیام
پھر فٹ پاتھ پر چائے کی دکان (کھوکھا) لگالی لیکن جگہ پر قانونی حق نہیں تھا۔ جب سڑک نکلی تو سرکاری جگہ چھوڑنا پڑی۔ کپڑے کے کاروبار کا سوچا، مگر اس میں بھی نقصان ہوگیا۔ ہر موتی پروانے کا کام کیا، بچوں کے لیے سب کچھ کیا، اس طرح سے زندگی گزاری۔
یہ بھی پڑھیں: آئی سی سی نے ویمنز ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2026 کے فائنل کے وینیو کا اعلان کردیا
مشکلات کا سامنا
ان کا مزید کہنا تھا کہ اماں بریڈ دیتی تو بچوں کو کہتی کہ پانی میں بھگو کر کھالیں اور پانی پی لیں۔ کئی بار اپنے گھر اور پنشن میں اضافے کے لیے سرکار کو درخواست کی، غداروں کو بہت کچھ ملا لیکن وفادار کے خاندان کو صرف اڑھائی سو روپے پنشن ملی، پھر چار سو روپے ہوگئی جو 29 سال لی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی ٹینس اسٹار طلحہ وحید کو گنیز ورلڈ ریکارڈ کا سرٹیفکیٹ موصول
آخری حالات
پھر 2010 سے چھ ہزار پنشن ہوگئی۔ کرائے کے مکان میں رہ کر، بیماری کی حالت میں اس کم سے گزارا نہیں ہوسکتا، افسوس کی بات ہے، ہمارا خاندان بہت اعلیٰ ہے لیکن نصیب شاید اعلیٰ نہیں تھا۔
ٹویٹر پر رائے
Heart wrenching story of Sultana Begum’s travails in her own voice. The great grand daughter in law of the last #Mughal Emperor Bahadur Shah Zafar. One had read stories in the press about her selling tea. Seeing this was unreal. #History doesn’t just fade — it’s often abandoned. pic.twitter.com/8oS7irn66y
— Raza Ahmad Rumi (@Razarumi) July 9, 2025