غزہ جنگ بندی مذاکرات اسرائیلی افواج کے انخلا پر اختلافات کے باعث تعطل کا شکار
غزہ میں جنگ بندی کی مذاکرات میں تعطل
غزہ (ڈیلی پاکستان آن لائن) میں جنگ بندی کے معاہدے کے لیے جاری مذاکرات اسرائیلی افواج کے فلسطینی علاقے سے انخلا پر اختلافات کے باعث تعطل کا شکار ہو گئے، جیسے کہ دوحہ میں مذاکرات سے واقف فلسطینی اور اسرائیلی ذرائع نے ہفتہ کو رائٹرز کو بتایا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب کا پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر خواجہ شاہد محمود کے انتقال پر اظہار افسوس
مذاکرات کی صورت حال
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ یہ بالواسطہ مذاکرات، جو امریکا کی تجویز کردہ 60 دن کی جنگ بندی سے متعلق ہیں، جاری رہنے کی توقع ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قلات میں دہشتگردوں کا سیکیورٹی فورسز کے کیمپ پر حملہ، 7 اہلکار شہید
اسرائیل کے حملے
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق مذاکرات کی معلومات سے واقف 2 فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ بات چیت اس وجہ سے رکی ہوئی ہے کہ اسرائیل اپنی فوج کو غزہ میں رکھنے کی تجویز دے رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سینئر سیاستدان چوہدری نثار کا علاج کیلئے بیرون ملک جانے کا فیصلہ
غزہ میں انسانی جانوں کا ضیاع
مذاکرات کے دوران بھی اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، اور غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے ہفتے کے روز 20 سے زائد فلسطینیوں کی شہادت کی تصدیق کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان آخری ٹی 20 میچ آج کھیلا جائیگا
عینی شاہدین کی گواہی
بسام حمدان نے کہا کہ ہم سب یہاں اس لیے آئے تھے، کیوں کہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ یہ علاقہ محفوظ ہے، جب ہم سو رہے تھے، تو ایک دھماکا ہوا، جہاں دو لڑکے، ایک لڑکی اور ان کی ماں موجود تھے، دھماکے کے بعد ہم نے انہیں چیتھڑوں میں پایا، ان کے جسم کے ٹکڑے بکھرے ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈیرہ اسماعیل خان میں طوفانی ہواؤں کے ساتھ بارش، 7 افراد جاں بحق، متعدد علاقوں میں بجلی معطل
اقوام متحدہ کی تشویش
طبی عملے نے کہا کہ ہفتے کو 17 افراد اس وقت شہید ہوئے، جب وہ خوراک کی امداد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور اسرائیلی فوج نے فائرنگ کی، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 6 ہفتوں میں امداد کے متلاشی 800 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خاتون اپنے والدین کو قتل کرکے 4 سال تک لاشوں کے ساتھ رہتی رہی، دل دہلا دینے والی تفصیلات سامنے آگئیں۔
اسرائیل کا جواب
عینی شاہدین نے برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ لوگوں کو سر اور سینے میں گولیاں لگییں، رائٹرز نے کئی لاشیں سفید کفن میں لپٹی ہوئی دیکھیں، لواحقین نصیر ہسپتال میں رو رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: جو معاشرہ بچوں کو امن نہیں دے سکتا، کبھی پائیدار امن نہیں پا سکتا:وزیر اعلیٰ مریم نواز
آئندہ کے خطرات
ہفتے کے روز اقوام متحدہ کی 7 ایجنسیوں نے ایک مشترکہ بیان میں خبردار کیا کہ اگر غزہ میں ایندھن ختم ہو گیا تو یہ ایک ناقابل برداشت نیا بوجھ ہو گا اس آبادی پر جو پہلے ہی بھوک کے دہانے پر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یہ دل توڑنے والا منظر اور بڑا سرپرائز تھا، جس احساس برتری کے ساتھ سرکاری ملازمت میں داخل ہوا تھا اس کا پارہ دوسری بار صفر سے نیچے گر گیا تھا۔
مذاکرات کے مقصد
اسرائیل اور حماس کے وفود قطر میں ایک ہفتے سے موجود ہیں، جہاں یرغمالیوں کی مرحلہ وار رہائی، اسرائیلی افواج کا انخلا اور جنگ کے خاتمے پر بات چیت کے لیے ایک نیا دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی احتجاج، لاہور میں دوسرے روز بھی میٹرو بس سروس مکمل طورپربند
سیاسی صورتحال
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جنہوں نے گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے ملاقات کی، انہوں نے کہا تھا کہ جلد معاہدے کی امید ہے، تاہم، اسرائیلی اور فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ دیرینہ مسائل بدستور حل طلب ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: قومی سلامتی کے لیے پالیمان کا ایک زبان ہونا خوش آئند ہے: نواز شریف
حماس کے مطالبات
ایک فلسطینی ذریعے نے کہا کہ حماس نے وہ انخلا کے نقشے مسترد کر دیے ہیں جو اسرائیل نے تجویز کیے تھے، جن کے مطابق رفح، شمالی و مشرقی علاقوں سمیت غزہ کا تقریباً 40 فیصد حصہ اسرائیلی کنٹرول میں رہنا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی کیخلاف غداری کی کارروائی کیلئے دائر درخواست واپس لینے کی بنا پر نمٹا دی گئی
امداد اور جنگ کے خاتمے کے معاملات
2 اسرائیلی ذرائع نے کہا کہ حماس چاہتی ہے کہ اسرائیل وہاں تک پیچھے ہٹ جائے جہاں اس نے مارچ سے قبل پچھلی جنگ بندی کے وقت کنٹرول سنبھالا تھا۔ فلسطینی ذرائع نے کہا کہ امداد کی فراہمی اور جنگ کے خاتمے کی ضمانتوں سے متعلق معاملات بھی رکاوٹ ہیں، یہ بحران مزید امریکی مداخلت سے حل کیا جا سکتا ہے۔
پہلو بہ پہلو مطالبات
حماس کا طویل عرصے سے مطالبہ ہے کہ جب تک جنگ کے خاتمے پر کوئی معاہدہ نہ ہو جائے، وہ باقی ماندہ یرغمالیوں کو آزاد نہیں کرے گی، جب کہ اسرائیل کا اصرار ہے کہ وہ تب تک جنگ ختم نہیں کرے گا، جب تک کہ تمام قیدی رہا نہ ہو جائیں اور حماس کو جنگی قوت اور غزہ میں انتظامیہ کے طور پر ختم نہ کر دیا جائے۔








