چینی کی درآمد کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے، فواد حسن فواد

سرکاری چینی درآمدات پر نظرثانی کا مطالبہ
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سابق وزیر اعظم نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری اور سابق نگران وزیر فواد حسن فواد کا کہنا ہے کہ عام آدمی کے لیے چینی کی قیمت قابو میں رکھنے کے نام پر تقریباً 30 کروڑ ڈالر مالیت کی چینی درآمد کرنے کا فیصلہ فوری طور پر نظرثانی کا متقاضی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یہ عمر سرفراز چیمہ وہ ہے جو گورنر رہے ہیں؟ سپریم کورٹ کا استفسار
چینی کا اصل صارف کون؟
ایکس پر جاری ایک بیان میں فواد حسن فواد نے وضاحت کی کہ چینی کا سب سے بڑا استعمال کرنے والا طبقہ عام عوام نہیں بلکہ فوڈ اینڈ بیوریج انڈسٹری ہے، جو چینی کی اصل صارف ہے۔ ان کے مطابق یہ حیران کن نہیں ہے کیونکہ یہی صنعتیں وہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلے زرمبادلہ کمانے کے نام پر چینی کی برآمد کے آرڈرز حاصل کیے، اور اب وہی زرمبادلہ اپنے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ان صنعت کاروں نے برآمدات اور مقامی مارکیٹ دونوں جگہ قیمتوں میں ہیرا پھیری کر کے اربوں روپے کمائے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا اسلام آباد احتجاج رکوانے کیلئے درخواست دائر
پاکستان میں چینی کا استعمال
فواد حسن فواد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فی کس چینی کا سالانہ استعمال 28 کلوگرام ہے، جو ایک بہت بڑا عدد ہے۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ چینی ایک ایسی مضر صحت شے ہے جس پر قیمتی زرمبادلہ خرچ نہیں ہونا چاہیے۔ موجودہ حالات میں عام آدمی نہ مشروبات خرید سکتا ہے اور نہ ہی مٹھائیاں، لیکن حکومت پھر بھی ان کے نام پر چینی درآمد کرنا چاہتی ہے اور پھر زرمبادلہ کے لیے مزید قرض لے گی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں مشتعل شہریوں نے ڈاکو کو تشدد کے بعد جلاکر ہلاک کردیا
حکومت کی ذمہ داری
ان کا کہنا ہے کہ قیمتوں پر قابو پانا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے، اور اگر وہ اس میں ناکام ہو گئی ہے تو اس ناکامی کو جواز بنا کر چینی درآمد کرنا درست نہیں۔ حکومت کو اصل مسئلے پر توجہ دینی چاہیے، یعنی چینی کی قیمتوں میں اضافے میں شوگر انڈسٹری، مڈل مین اور تاجروں کے کردار کی تحقیقات ہونی چاہیے، درآمدات کا سہارا لینے کی بجائے۔
ایف بی آر کی ذمہ داری
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جنہوں نے چینی کی برآمد کی اجازت دی تھی، ان کا کیا بنا؟ اور ایف بی آر کہاں ہے؟ اگر ایف بی آر صرف پچھلے پانچ برسوں میں شوگر انڈسٹری چین کی کمائی پر 35 فیصد ٹیکس ہی وصول کر لے، تو وہ ملک کی ٹیکس آمدنی میں ایک بڑا خلا پُر کر سکتا ہے۔