بلوچستان لبریشن آرمی کے دہشت گرد پنجابی اور سرائیکی ورکرز کو کیوں نشانہ بنارہے ہیں؟

بلوچستان میں سیاسی حقوق کا مسئلہ
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) تجزیہ کار ضیغم خان کہتے ہیں بلوچستان میں کسی سے بھی بات کریں تو وہ بلوچستان کے قدرتی وسائل پر قبضے اور سیاسی حقوق کو ان حملوں کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں پاکستان کے دیگر صوبے بلوچستان کو کالونی بنانا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: تیز ہوائیں، دشوار راستے، مالاکنڈ کے باٹا پہاڑی جنگل میں لگی آگ مزید پھیل گئی
تجزیہ اور علیحدگی پسند تحریکیں
اپنے یوٹیوب وی لاگ میں ضیغم خان نے بتایا کہ بی ایل اے جیسی تنظیمیں سمجھتی ہیں کہ علیحدگی کے سوا ان مسائل کا کوئی حل نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 1974 میں بلوچستان میں ہونے والی بغاوت کی ناکام کوشش کے زخم اب بھی موجود ہیں اور ایک بار پھر نسل پرستی کو پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سموگ ختم کرنے کیلئے ہمیں اپنے لائف سٹائل میں تبدیلی لانا ہوگی: عظمیٰ بخاری
حملوں کی بڑھتی ہوئی تعداد
ضیغم خان نے اپنے یوٹیوب وی لاگ میں پاکستان انسٹیٹیوٹ اینڈ پیس سٹڈیز کے عامر رانا کے پوڈ کاسٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ رواں سال اب تک 19 حملے ہو چکے ہیں اور موجودہ حملہ جو پنجاب کے شہریوں پر کیا گیا وہ 19واں حملہ تھا۔ بلوچستان میں 2005 سے اب تک 219 حملے دیگر صوبے کے لوگوں پر ہو چکے ہیں۔
علیحدگی پسند عناصر کا مقصد
علیحدگی پسند عناصر کی جانب سے ان حملوں کا بنیادی مقصد عوام کے درمیان ایک ایسی خلیج پیدا کرنی ہے جس پر بلوچستان کے لوگ قائل ہو جائیں اور وہ سمجھنے لگیں کہ پاکستان کے لوگ ان کے دشمن ہیں اور علیحدگی کے سوا ان کے مسائل کا کوئی دوسرا حل موجود نہیں۔