وہ ہنس کر کہنے لگا”حکم کریں“

مصنف کا تعارف
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 229
یہ بھی پڑھیں: سموگ ختم کرنے کیلئے ہمیں اپنے لائف سٹائل میں تبدیلی لانا ہوگی: عظمیٰ بخاری
فرق ایک ووٹ کا
اگلا مرحلہ چیئر مین کا انتخاب تھا۔ دو ہی امیدوار تھے۔ چوہدری آصف دھوریہ اور چوہدری سرور آف چک دھنی۔ دونوں سے میری رسمی ملاقات تھی۔ دونوں ہی اچھے انسان تھے۔ مقابلہ بہت سخت تھا۔ مجھے غلام محمد نے بتایا؛ "سر! سخت مقابلہ ہے۔ راجہ مزمل کا ووٹ فیصلہ کن ہے۔ جس کے پلڑے میں ڈال دیا وہی مقدر کا سکندر ہو گا۔ ویسے اُس نے دونوں ہی امیدواروں کو آس دلا رکھی ہے۔"
یہ بھی پڑھیں: جامعہ کراچی میں پانی کی 84 انچ قطر کی مرکزی لائن پھٹ گئی، شہر کو فراہمی متاثر
الیکشن کی تیاری
الیکشن ونیو میرے دفتر کا میٹنگ حال تھا۔ الیکشن سے دو تین روز قبل مجھے راجہ یعقوب صاحب کا فون آیا کہنے لگے؛ "الیکشن میں چوہدری آصف کو جتوانا ہے۔" میں نے جواب دیا؛ "سر! کانٹے کا مقابلہ ہے صرف ایک ووٹ کا فرق ہے۔ کسی طرح کی بھی مدد نہیں کی جا سکتی۔" وہ ہنسے اور کہنے لگے؛ "برخودار! پہلے آصف کا نام لے کر ووٹنگ شروع کرانا۔ سمجھ گئے نا۔" میں نے کہا؛ "جی سر۔"
یہ بھی پڑھیں: 4 ماہ کے دوران ایک ارب 72 کروڑ کی بیرونی امداد ملی ، اقتصادی امور ڈویژن
ملاقات اور حکمت عملی
اسی دن تحصیل دار ذوالفقار باگڑی کے دفتر بیٹھا تھا کہ ایک صاحب آئے۔ سفید رنگ، سرخ و سفید چہرے، لمبا قد۔ باگڑی اس شخص کو میری طرف متوجہ کرتے کہا؛ "چوہدری! انہیں جانتے ہو۔" وہ بولا نہیں۔ باگڑی نے کہا؛ "اگر تم انہیں نہیں جانتے تو تم نے الیکشن کیا خاک لڑنا ہے؟ شہزاد صاحب ہیں انہوں نے ہی تمھیں ہرانا یا جتانا ہے۔" وہ بغل گیر ہو گیا۔ میں نے آصف کو مخاطب کرکے کہا؛ "چوہدری صاحب! پراجیکٹ منیجر کا دفتر بلدیاتی الیکشن کے لئے درگاہ ہوتی ہے۔ لوگ چڑھاوے چڑھاتے ہیں، مرادیں مانگتے ہیں اور ہم جیسے درویش اگر موج میں ہوں تو کسی فریاد ی کی سن لیں اور جھولی بھر دیں۔ آپ نے تو آج تک زحمت ہی نہیں کی درگاہ پر حاضری کی۔" وہ شرمندہ سی ہنسی ہنس کر کہنے لگا؛ "حکم کریں۔" میں نے کہا حکم کرنے کا وقت اب گزر گیا اب تو نیازیں چڑھانے اور منتیں مانگنے کا وقت ہے۔ مذاق میں کہا گیا یہ فقرہ بڑی حقیقت تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے نجکاری ، خریدار کی جانب سے کتنی بولی لگائی گئی ؟ جانیے
آخری شق کا مطالعہ
میں نے الیکشن سے ایک روز قبل الیکشنز رولز کا بغور مطالعہ کیا اور مجھے وہ شق مل گئی جس کے مطابق حروف تہجی کے لحاظ سے ووٹنگ کرائی جانی مقصود تھی۔ آصف کا نام الف سے شروع ہوتا تھا لہٰذا یہ پہلے پکارا جائے گا اور سرور کا "س" سے لہٰذا بعد میں۔ اس کا صرف یہ فائدہ ہو سکتا تھا کہ ڈانواں ڈول ووٹر "راجہ مزمل" آصف کے حق میں ووٹ ڈال دے۔ قانون کی یہ ساری تیاری اس لئے تھی کہ چوہدری سرور کی حمایت میں دھوریہ یونین کونسل کے سابق چیئرمین چوہدری محمد ارشاد دھوریہ بڑے معزز، انتہائی کامیاب وکیل، بڑے زمیندار اور خاندانی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ اپنے تجربے اور لیاقت سے قانونی نکات سے معاملہ الجھا سکتے تھے۔ میں بھی تیار تھا میرے اندر بھی ایک چھوٹا سا مگر سیانا وکیل موجود تھا۔
یہ بھی پڑھیں: عورتوں کے دوپٹے چھین کر آئین سازی نہ کریں، علی محمد خان
انتخاب کا دن
ماں دودھ نہیں بخشے گی؛ سرور اور آصف میں مقابلے کا دن آن پہنچا تھا۔ میرے دفتر کا وسیع لان اور لمبی ڈرائیو وے سبھی دونوں پارٹیوں کے حمایتوں سے کھچا کھچ بھری تھی۔ ان میں اسلحہ بردار بھی تھے۔ پولیس کی بڑی تعداد خادم حسین مجسٹریٹ درجہ اول کی سربراہی میں موجود تھی۔ تلاوت کلام پاک کے بعد میں نے بطور پرزئیڈنگ افسر الیکشن کے رولز اور طریقہ کار پڑھ کر سنایا۔ سبھی حاضر اراکین کی حاضری لگوائی گئی۔ میں نے پکارا؛ "وہ کونسلرز ہاتھ کھڑا کریں جو چوہدری محمد آصف کو ووٹ دینا چاہتے ہیں۔" چوہدری ارشاد صاحب نے اعتراض کیا کہ پہلے اس کانام کیوں لیا سرور کا کیوں نہیں۔ جواب دیا؛ "قانون کے مطابق حروف تہجی کے حوالے سے یہی نام پہلا آتا ہے۔" (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔