اسلام آباد ہائیکورٹ: توہینِ مذہب کیسز کی تحقیقات کیلئے کمیشن کی تشکیل کا حکم
اسلام آباد کی خبریں
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہینِ مذہب کے مقدمات کی تحقیقات کیلئے حکومت کو کمیشن تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی عدالت کی جانب سے حسن نواز کی کمپنی کو دیوالیہ قرار دینے پر ترجمان نواز شریف خاندان کا رد عمل
عدالت کا فیصلہ
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے توہینِ مذہب کے مقدمات کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل دینے کی درخواستوں پر سماعت کی۔ ہائیکورٹ نے درخواستیں منظور کرتے ہوئے حکومت کو کمیشن تشکیل دینے کا حکم دیا۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور: پیشی پر عدالت جانیوالے باپ اور دو بیٹوں کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا
کمیشن کی تشکیل کا وقت
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کو 30 دن میں کمیشن تشکیل دینے کا حکم دیا اور کہا کہ وفاقی حکومت کا تشکیل کردہ کمیشن چار ماہ میں اپنی کارروائی مکمل کرے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ کمیشن کو اگر مزید وقت چاہیے ہو تو عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے ایک اور بڑا سیلابی ریلہ چھوڑ دیا
سوشل میڈیا میں بحث
واضح رہے کہ گزشتہ کئی روز سے یہ مقدمہ سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ کچھ لوگوں کا الزام ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لوگوں کو توہین مذہب کے کیسز میں پھنسایا جاتا ہے۔ اس کام میں ایک خاتون کے ساتھ ایک وکیل اور ایف آئی اے کے اہلکار ملے ہوئے ہیں جو نوجوانوں کو ہنی ٹریپ کرکے توہین مذہب کے مقدمات میں پھنساتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایران نے ہماری تنصیبات کو نشانہ بنایا تو سنگین نتائج ہوںگے: امریکہ، سلامتی کونسل میں بیان
الزامات کی نوعیت
اس فریق کا الزام ہے کہ لوگوں کو واٹس ایپ پر مختلف گروپوں میں ایڈ کیا جاتا ہے۔ پھر ان گروپوں میں مبینہ طور پر گستاخانہ مواد شیئر کیا جاتا ہے۔ جب نیا ممبر اس کی شکایت ایڈمن سے کرتا ہے تو ایڈمن اسے سکرین شارٹ بھیجنے کا کہتا ہے، لوگ اچھی نیت کے ساتھ یہ سکرین شارٹ ایڈمن کے ساتھ شیئر کرتے ہیں لیکن انہی سکرین شارٹس کو بنیاد بنا کر لوگوں کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات قائم کروادیے جاتے ہیں۔ اس معاملے میں تشدد، اغوا اور بھتے کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں۔
دفاعی موقف
دوسرے فریق کا کہنا ہے کہ کیسز تو کئی سال پہلے رجسٹرڈ ہوئے لیکن پہلے تو تشدد، اغوا یا بھتے کی کوئی شکایت نہیں آئی۔ بعض کیسز میں کئی سو صفحات تک کا ڈیٹا موجود ہے جو گستاخانہ مواد پر مبنی ہے۔








