70 سال سے جس ستون کے سہارے مملکت قائم دائم ہے، مجھے اس ستون کی مضبوطی چاہیے: حفیظ اللہ نیازی

تاریخی پس منظر
لاہور (ویب ڈیسک) سینئر صحافی و کالم نویس حفیظ اللہ نیازی نے لکھا ہے کہ 72 سالہ وطنی تاریخ گواہ ہے کہ مملکت میں ہر نظام کی ایک شیلف لائف اورExpiry تاریخ رہی ہے۔ جب کبھی اقتدار دھڑام ہوا، مقتدرہ کو کانوں کان خبر نہیں تھی۔ اسی پیرائے میں ایک مختصر تاریخی واقعہ!
یہ بھی پڑھیں: کرکٹرز نے مجھے اپنی نامناسب تصاویر بھیجیں
جنرل ضیاء الحق اور مجیب الرحمان شامی
22 اپریل 1986 کی رات میں جناب مجیب الرحمان شامی آرمی ہاؤس راولپنڈی میں صدر جنرل ضیاء الحق کی خدمت میں حاضر تھے۔ گفتگو کا آغاز ہوا ہی چاہتا تھا کہ شامی صاحب برجستہ گویا ہوئے، "جنرل صاحب! کیا آپ کو معلوم ہے کہ اب جبکہ آپ کے اقتدار کا زوال شروع ہو چکا ہے؟ آپ نے بعد میں اقتدار کا بھی کوئی بندوبست سوچ رکھا ہے؟" جنرل ضیاء نے مخصوص انداز میں قہقہہ لگا کر شامی صاحب کو میوہ جات پیش کرتے ہوئے حسب معمول سنجیدہ گفتگو کو ہلکا پھلکا بنایا!
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ کا کام نہیں کہ وہ ہر کام کو دیکھے ہو رہا ہے یا نہیں، لاہور ہائیکورٹ
قوت اور کمزوری کے ستون
حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ "عقیدہ پختہ! مملکت خداداد کے تین ستون، 'حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ'۔ تکلف برطرف، ستون ایک ہی، باقی دو خانہ پُری۔ اگرچہ آئین موجود مگر عزتِ سادات سے محروم، نتیجتاً پارلیمان اور عدلیہ کا انحصار 'ایک ستون' کے مضبوط کندھوں پر ہے۔"
یہ بھی پڑھیں: صلت پاشا اور رضا ہارون نے یاسمین راشد کی رہائی کیلئے آواز بلند کر دی
سانحہ 9 مئی
بلاشبہ سانحہ 9 مئی ایک سیاہ باب ہے۔ یہ پُرہجوم اشتعال انگیزیوں، قتل و غارت، جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ جیسے پُرتشدد واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ 9 مئی کی منفرد حیثیت یہ ہے کہ پہلی دفعہ فوجی تنصیبات اور چھاؤنیوں پر حملہ ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: تقویٰ اختیار کرنا ایمان والوں کی شان، تقویٰ کو اختیار کریں گے تو اللہ جنت عطا فرمائے گا، خطبہ حج
عمران خان کی حکمت عملی
عمران خان کا عسکری قیادت پر تنقید میں ہر حد پھلانگنا یا اضطراری یا سوچا سمجھا منصوبہ۔ 9 مئی کو ہونے والے واقعات کی کیفیت کیا تھی؟
یہ بھی پڑھیں: آزادکشمیر: تیندوا گھر سے 8 سالہ بچی کو اٹھا کر لے گیا، بچی مردہ حالت میں برآمد
قانونی چالیں اور باہمی تعلقات
سانحہ 9 مئی میں ملوث سویلین کو فوجی عدالت کے حوالے کرنا وطنی آئینی تاریخ کا ایک انہونا واقعہ ہے۔ یہ ایک سوال ہے کہ کیا سپریم کورٹ کا اپنے ماتحت عدالتی نظام سے اعتماد اُٹھ چکا ہے؟
نتیجہ
جمہوری سبق یہ ہے کہ ریاست کے چار ستون "مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور آزاد پریس" ہیں۔ لیکن میری زندگی کا مشاہدہ یہ ہے کہ ریاست ہمیشہ تین ستونوں پر کھڑی رہی ہے۔ مجھے اس 'ایک ستون' کی فکر لاحق ہے کہ یہی ریاست پاکستان کی بقاکی ضمانت ہے۔