وادیٔ بولان کی سرنگیں دنیا بھر میں مشہور اورحیران کر دینے والی ہیں،جناتی قسم کا کوئی پہاڑ یکدم سامنے آن کھڑا ہوتا، جس سے منہ پھیرنا مشکل ہو جاتا

مصنف کی معلومات
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 192
یہ بھی پڑھیں: وفاق نے چینی کی درآمد کیلئے ایک اور ٹینڈر جاری کر دیا، 23 ستمبر تک بولیاں طلب
بولان پاس کی خصوصیات
بولان پاس کے اس علاقے کی اوسطاً بلندی سطح سمندر سے 3500 فٹ ہے۔ سبی اور کوئٹہ کے درمیان اس لائن پر مجموعی طور پر 350 پْل اور 18 سرنگیں تعمیر کی گئی تھیں۔ اس دوران ریل گاڑی اپنی پیچ دار پٹری کی بدولت کئی دفعہ دریائے بولان پار کرکے دوسری طرف آتی جاتی رہتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: صدر اور وزیراعظم نے جنرل سیدعاصم منیرکو ’’بیٹن آف فیلڈ مارشل‘‘ سے نواز دیا
پٹری بچھانے میں مشکلات
یہاں پٹری بچھانا حقیقتاً بہت ہی دشوار کام تھا۔ بولان کے اس پہاڑی سلسلے میں ان گنت برساتی نالے ہیں جن پر پْل بنائے گئے ہیں۔ چونکہ شروع میں یہ پٹری دریا کے پاٹ کیساتھ ساتھ پکی زمین پر اس یقین کے ساتھ بچھائی گئی تھی کہ وہ خشک اور محفوظ جگہ پر ہے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں، ایک بار شدید بارشیں ہوئیں اور یہ دریا بپھرا تو اپنے ساتھ پٹری کو بھی بہا کر لے گیا۔ ضروری مرمت کے بعد بھی کم از کم 2 دفعہ ایسا ہوا کہ پٹریاں بہہ جانے سے یہ راستہ بند ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے پاس دریاؤں کا پانی روکنے کی کوئی سہولت موجود نہیں تو پاکستانی دریاؤں کا پانی کہاں گیا؟ ماہرین نے سوالات اٹھادیے۔
نئے اقدامات
اس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اب اس پٹری کیلیے نسبتاً محفوظ اور بلند جگہ تلاش کی جائے، اس وقت تک یہ پٹری ویسے بھی نیرو گیج یعنی 2 فٹ 6 انچ چوڑی تھی۔ اب ان حادثات کے بعد اس پٹری کو براڈ گیج میں بدلنے کا یہ ایک مناسب موقع بھی تھا۔
یہ بھی پڑھیں: دریائے سوات میں سیاحوں کے ڈوبنے کے بعد ٹورازم اتھارٹی کی ایڈوائزری جاری
نئی براڈ گیج پٹری
غرض ایک بار پھر اس علاقے کا سروے ہوا اور پچھلے مقامات سے ذرا ہٹ کے کچھ بلندی پر نئی براڈ گیج پٹری بچھائی گئی جو آج تک قائم ہے اور ریل گاڑیاں اب اسی راستے پر چلتی ہیں۔ اب بھی راستے میں کئی جگہ متروک اور پرانی نیرو گیج کی پٹریوں کے علاوہ اجاڑ سرنگوں اور ٹوٹے پھوٹے پلوں کے ستون پرانے وقتوں کی کہانیاں سناتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جوہی چاولہ بالی وڈ کی امیر ترین حسینہ، فلمسازوں کے بچوں میں ہریتھک روشن کا غلبہ
وادیِ بولان کی سرنگیں
وادیئ بولان کی سرنگیں دنیا بھر میں اپنی خوبصورتی اور پر اسراریت کے لیے بہت مشہور اور حیران کن ہیں۔ یہ ساری پٹری چونکہ خشک اور پتھریلے پہاڑوں کے بیچ میں سے نکالی گئی تھی، اس لیے جہاں کہیں ممکن ہوتا وہ ان پہاڑیوں سے بچ بچا کر اور تھوڑا خمیدہ ہو کر اس کو نکال کر لے جاتے لیکن اکثر ایسا ہوتا تھا کہ جناتی قسم کا کوئی پہاڑ یکدم سامنے آن کھڑا ہوتا، جس سے منہ پھیرنا مشکل ہو جاتا۔
یہ بھی پڑھیں: اداکار نمیر خان کی خوابوں کی لڑکی کون ہے؟
سرنگیں کھودنے کی تجربات
ایسے میں ایک ہی صورت رہ جاتی تھی کہ اس پہاڑ کے اندر سے سرنگ نکال کر پٹری کو اس میں سے گزار دیا جائے۔ ظاہر ہے ان دنوں میں جب یہ پٹری بچھائی جا رہی تھی، سرنگ کھودنا کوئی اتنا آسان کام بھی نہ تھا۔ آگ اْگلتے سورج تلے سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں مزدور، خچر اور اونٹ وغیرہ اس کام پر جْت جاتے اور کچھ انگریز انجینئراور مقامی نگراں ان سے یہ کام کرواتے اور سرنگوں کو طے شدہ مدت میں مکمل کرواتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پولیس کو راستے سے ہٹانا ہمارے لیے مسئلہ نہیں، لڑنا نہیں، بلوچستان کے مسائل حل چاہتے ہیں، حافظ نعیم الرحمان
ڈائنامائٹ کا استعمال
1867ء میں الفریڈ نوبل نے ڈائنامائٹ ایجاد کر لیا تھا جو اب دنیا بھر میں دھماکے سے چٹانیں توڑنے کے کام آرہا تھا۔ لہٰذا جہاں ضروری سمجھا جاتا ڈائنامائٹ کو بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔