بیگم آباد احمد خاں پیپلز پارٹی کی طرف سے ایم پی اے بنیں، 1960ء کے عشرہ میں ہمارے ادارہ پاکستان یوتھ موومنٹ کے سیمینارز میں تشریف لائیں

مصنف کا تعارف
مصنف: رانا امیر احمد خاں
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ مریم نواز نے پنجاب میں پینے کے صاف پانی کے پراجیکٹ شروع کرنے کا اعلان کر دیا
قسط 104
انہوں نے اتوار کے دن گھر میں ناشتے کی ٹیبل پر مجھے بتایا کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی تمام اراضی اپنی دونوں بیٹیوں کے نام کروانا چاہتے ہیں۔ میں نے انہیں کہا کہ اس کی ایسی بھی کیا جلدی ہے؟ اللہ آپ کو زندگی دے یہ کام وقت پر ہو جائیں گے۔ انہوں نے مجھے مزید کہا کہ وہ یہ کام جتنی جلدی ممکن ہو سکے کروا دینا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: قابل اعتماد رازدار دوست کے ساتھ گفتگو کیجیے جو آپ کو ماضی کے اثرات سے باہر نکلنے میں مدد مہیا کرے، اپنی کمزوریوں کی تحریری فہرست تیار کیجیے.
حفیظ اللہ اسحاق سے ملاقات
ان دنوں ملتاں میں حفیظ اللہ اسحاق بطور ڈپٹی کمشنر ملتان تعینات تھے۔ حفیظ اللہ اسحاق گورنمنٹ کالج میں ہمارے کواڈرینگل ہاسٹل کے پریفیکٹ ہوا کرتے تھے جب 1960ء کے زمانے میں میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بطور سٹوڈنٹ ریذیڈنٹ اس ہاسٹل کا سیکریٹری تھا۔
اپنے سسر کی خواہش پر میں ان کو ساتھ لے کر مع درخواست و کاغذات مال ڈپٹی کمشنر حفیظ اللہ اسحاق سے ملا جنہوں نے میری بہت عزت افزائی فرمائی اور میاں چنوں کے تینوں دیہات میں واقع اراضی میری بیگم شاہدہ پروین اور بہن شمیم بانو کے نام ہبہ کرنے کے آرڈرز کر دیئے اور تحصیلدار کو بلوا کر اس کام کو فوری مکمل کروا دیا۔
یہ بھی پڑھیں: بارشوں اور سیلاب سے قیمتی جانوں کا ضیاع، پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کی قیادت کا اظہارِ افسوس
گھر کی تاریخ
ملتان میں ہمارے پاس قیام کے دوران میرے سسر نے مجھے پہلی مرتبہ اپنی رہائش والے گھر واقع دیو سماج روڈ لاہور کے بارے میں ذکر کیا کہ وہ اور ان کے بھائی ایم اے ماجد خان دونوں ہی قیام پاکستان کے بعد ریاست پٹیالہ انڈیا سے لاہور آنے پر وہاں آج تک مقیم ہیں۔
یہ گھر ان کے والد کے نام الاٹ ہوا تھا جو بعد میں ہندو وقف پراپرٹی ثابت ہوا۔ اس طرح یہ گھر کسی کی بھی ملکیت نہ ہو سکتا تھا اور دونوں بھائیوں کے پاس کرایہ داری تھی لیکن ان کے بھائی نے والد صاحب کے انتقال کے بعد اس پورے گھر کو عملہ آویکیو ٹرسٹ پراپرٹی (ہندو وقف پراپرٹی) سے مل کر کرایہ داری دونوں بھائیوں کی بجائے صرف اپنے نام کروا لی اور اپنے بڑے بھائی کو تنگ کرنا شروع کر دیا کہ یہ گھر چھوٹے بھائی عبدالماجد خان کے نام ہے اس لیے بڑے بھائی اس کو خالی کر دیں۔ میرے سسر کا کہنا تھا کہ یہ کرایے داری دونوں بھائیوں کے نام ہونی چاہئے۔
یہ بھی پڑھیں: بی پی ایل افتتاحی تقریب، راحت فتح کو پرفارمنس پر کتنی رقم ملے گی؟
سیاسی تعاون
ان دنوں بیگم آباد احمد خان پیپل پارٹی کی طرف سے ایم پی اے بنی تھیں۔
بیگم صاحبہ پیپلز پارٹی میں شمولیت سے پہلے 1960ء کے عشرہ میں ہمارے ادارہ پاکستان یوتھ موومنٹ کے سیمینارز میں تشریف لایا کرتی تھیں۔ چنانچہ میں نے اپنی ہمشیرہ نسبتی شمیم بانو کو بیگم آباد احمد خان کے نام ایک رقعہ دیا اور کہا کہ وہ لاہور جا کر ان سے ملیں وہ اس کام میں آپ کی مدد کریں گی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی ڈاکٹروں کی ریکارڈ تعداد نے امریکا میں رہائش حاصل کر لی
دوسرے اقدامات
کچھ عرصہ بعد میں ملتان سے تبدیل ہو کر لاہور چلا گیا۔ لاہور میں قیام کے دوران میں نے اپنے پرانے گورنمنٹ کالج کے کلاس فیلو ڈاکٹر خالد رانجھا جو ان دنوں قانون میں انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد لاہور میں اب ایک نامی گرامی وکیل تھے۔ ان سے مل کر چیئرمین مترو کہ پراپرٹی ٹرسٹ بورڈ کے چیئرمین کو درخواست دی کہ کرایہ داری دونوں بھائیوں کے نام کی جائے۔
اس درخواست پر محکمہ دو تین سال تک تاریخیں دیتا رہا اور بالآخر پاکستان یوتھ موومنٹ میں میری سابقہ رفیق کار شکیلہ شریف جو اب بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید کے ساتھ شادی کے بعد بیگم شکیلہ رشید کے نام سے جانی جاتی تھیں کی وساطت سے اور مرکزی وزیر صحت و مینارٹی افیئرز کے حکم نامہ پر گھر کی کرایہ داری والا جائز کام دونوں بھائیوں کے نام ہو جانے سے ایک بڑی ناانصافی کی تلافی ہوگئی۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔