کسی کے سسکیوں کا ماتم کرنے والا نہیں۔۔۔

تحریر: خالد غورغشتی

غیرت کے نام پر قتل

نا جانے غیرت کس بلا کا نام ہے کہ اس کے نام پر ہمیشہ قتل ہی ہوتا ہے۔ بلوچستان میں قتل کا یہ معمولی نوعیت کا واقعہ نہیں کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے، بلکہ یہ واقعہ ان گھاؤں کو تازہ کرتا ہے، جہاں یورپ سے آئی لڑکی کو خوشی خوشی اپنے لختِ جگر کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے، مگر اپنی معصوم کلی کو پسند کی شادی کی خواہش پر کچل دیا جاتا ہے۔

اجتماعی ظلم کی داستان

غیرت کے نام پر قتل کا یہ لامتناہی سلسلہ ہے؛ جس میں کوئی بھی شہر، دیہات یا گاؤں محفوظ نہیں رہا۔ یہاں روز ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو اذیت سے گزرنا پڑتا ہے، ہر دوسرے گھر حوا کی بیٹی کے ساتھ ہونے والے کسی نہ کسی سماجی ظلم کا گواہ ہے لیکن کوئی ان کی آہ سننے والا نہیں، کوئی ان کی سسکیوں کا ماتم کرنے والا نہیں۔

ایک بہن کی کہانی

گزشتہ دنوں ایک بہن نے مجھے اپنی زندگی کے تلخ حقائق بتاتے ہوئے کہا کہ اس کی شادی ایسے شخص سے کر دی گئی جو منشیات کا عادی تھا۔ وہ نہ صرف اس پر تشدد کرتا بلکہ جب وہ اُمید سے ہوئیں تو اسے ایک کمرے میں قید کر دیا گیا۔ بھوکا پیاسا رکھ کر اس پر ایسا ظلم ڈھایا گیا کہ زمین بھی کانپ جائے مگر ان ظالموں کے دل پر ذرا بھی اثر نہ ہوا۔ جس کے نتیجے میں اس کا بچہ دنیا میں آنے سے قبل ہی چل بسا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ والدین کو بھی اس سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔

بھاگنے کی کوشش

ایک دن اس نے سسرالیوں کی باتیں سنیں کہ وہ لڑکیوں کو شادی کے بعد بیچ دیتے ہیں۔ اس نے ہمت کر کے ان سے نو دو گیارہ ہونے کی کوشش کی، اور کئی دن کی جدوجہد کے بعد اپنے والدین کے گھر پہنچی تو جیسے وہاں کہرام مچ گیا۔ اگلے دن جب سسرالی آئے تو معافی تلافی کی بجائے اسی لڑکی پر دوبارہ ہاتھ اٹھایا مگر اب وہ کمزور نہیں رہی تھی، اس نے ان کا بھرپور مقابلہ کیا اور سب مظالم بے نقاب کر کے ان سے نجات حاصل کر لی۔ آج وہ لڑکا نہ صرف فٹ پاتھوں پر مانگنے پر مجبور ہے، بلکہ اس کا جسم کوڑھ جیسی گندی بیماری سے گل رہا ہے۔

انسانیت کی پکار

میں نے اس خاتون سے پوچھا، آپ نے اس ظالم کے خلاف کارروائی کیوں نہ کی؟ وہ روتے ہوئے بولی ’’میرا تو بیٹا 9 ماہ میں ہی میرا ساتھ چھوڑ گیا، میں نہیں چاہتی کہ کسی اور ماں کی گود بھی اجڑے۔‘‘ یہ الفاظ سن کر دل دہل گیا کہ کتنی بڑی انسانیت پوشیدہ ہے ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے دلوں میں۔ جنھیں ہم کمزور سمجھتے ہیں، اصل میں وہی معاشرے کی اصل طاقت ہیں۔

قومی المیہ

یہ مسئلہ اب صرف کسی ایک لڑکی یا ایک خاندان تک محدود نہیں رہا، یہ قومی المیہ بن چکا ہے۔ جو قانون کے اندھے پن، پولیس کی بے حسی، مذہبی طبقے کی خاموشی اور معاشرتی بے شعوری کا نتیجہ ہے۔ کیا یہ وہی معاشرہ ہے جہاں عورت کو ماں، بہن، بیٹی کا مقام دیا گیا تھا؟ اگر ہاں تو پھر یہ قتل، یہ ظلم اور یہ قید و بند کیوں؟
جب ایک حلال رشتہ بھی ’’غیرت‘‘ کی گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ قصور محبت کا ہے یا ہمارے بیمار اور منافقانہ ذہن کا؟
یہ کیسی دعوت تھی۔ بدقسمتی سے پنجاب کے قبائل کی طرح بلوچستان کے بھی کچھ قبائلی خونخوار بزرگ خلوص بھرے بندھن سے راضی نہ ہوئے۔ یہ وہ سماج ہے جس کی بنیادیں صرف جاہلیت کی دیواروں سے بنی ہیں۔ جو ذرا سی محبت، خلوص یا انفرادی آزادی کی آہٹ سے لرزنے لگتی ہیں۔

نوٹ

ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Categories: بلاگ

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...