پہلی مرتبہ پٹری 1889ء کے سیلاب میں بہہ گئی جبکہ اسے بنائے صرف 2 برس ہوئے تھے، سیلابی کیفیت سے چھوٹے بڑے پلوں کو بھی شدیدنقصان پہنچا

کہانی کا آغاز
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 197
اس لائن کی کہانی کوئٹہ پہنچنے کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی۔ اس پر کچھ اور بات کرنا بھی بنتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ آئینی بنچ نے کوئٹہ میں بچے کے اغوا کا نوٹس لے لیا
وادیِ بولان میں پٹری کا بچھنا
چونکہ وادیِ بولان میں سب سے پہلے چھوٹے گیج کی پٹری دریائے بولان کے خشک پاٹ میں بچھائی گئی تھی، اس دوران کم از کم 2 دفعہ ایسا ہوا کہ اس کو طوفانی بارشوں کے بعد یکدم آجانے والے سیلابی ریلوں نے، جنھیں فلیش فلڈ کہتے ہیں، بہت نقصان پہنچایا۔ سیلابی پانی کا دباؤ پٹریوں کو جگہ جگہ سے بہا کر لے گیا۔ اس سیلابی کیفیت سے چھوٹے بڑے پلوں کو بھی شدید نقصان پہنچا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد یوسف قومی ٹیم کی کوچنگ سے بھی الگ ہوگئے
پہلا سیلاب
پہلی مرتبہ تو پٹری 1889ء کے سیلاب میں ہی بہہ گئی تھی، جب کہ اسے بنائے ہوئے صرف 2 برس ہی گزرے ہونگے۔ مستقبل میں ایسے حالات اور حادثات سے بچنے کے لیے بہہ جانے والی پٹڑی کو دریائی راہگزر سے ہٹا کر اور تھوڑا بلند کر کے دوبارہ بچھایا گیا۔ بدقسمتی سے اگلے برس پھریہی تماشہ ہوا اور نئی پٹڑی بھی 1890ء کی شدید بارشوں کی نذر ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیں: اے این پی کے مقامی رہنما قاتلانہ حملے میں جاں بحق
نئے منصوبے کی ترتیب
پھر اسی سال ایک نئے منصوبے کے تحت لائن کے روایتی راستے میں کافی ردو بدل کیا گیا۔ اس بار پرانی چھوٹے گیج کی پٹڑی کو اکھاڑ کر اور کچھ پلوں اور سرنگوں کو متروک قرار دے کر نئی تعمیرات کی گئیں۔ براڈ گیج کی ایک نئی پٹری بچھائی گئی۔ اس دوران 7 سال تک یہ سبی۔ کوئٹہ لائن مکمل یا جزوی طور پر بند رہی۔ بالآخر 1897ء میں یہ تعمیراتی کام مکمل ہوئے اور اس پر باقاعدہ ریل گاڑیوں کی آمد و رفت شروع ہو گئی۔ سوا سو سال پہلے بچھائی جانے والی یہ متبادل ریلوے لائن آج بھی قائم ہے اور کوئٹہ آنے والی ساری گاڑیاں اسی لائن پر سفر کرتی ہوئی شہر میں داخل ہوتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا، پاک فوج نے بھی تصدیق کردی
خوبصورت سفر
کوئٹہ تک کا یہ ایک انتہائی دلکش سفر ہے۔ اس ریلوے لائن کے ارد گرد کا منظر بہت ہی حسین ہوتا ہے۔ خصوصاً جب گاڑی خوبصورت پہاڑیوں، چشموں، کاریزوں، کھجوروں اور پھلوں کے باغات میں سے گزرتی ہے تو یہ ایک دلنشیں منظر ہوتا ہے۔ بلا شبہ یہ پاکستان کا ایک خوبصورت علاقہ ہے۔ سیلانی اور سیاحتی طبیعت رکھنے والے بعض لوگ تو محض اس کی خوبصورتی سے محظوظ ہونے کی خاطر یہ سفر اختیار کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آئندہ مالی سال 26-2025 کے سالانہ ترقیاتی پلان کے اہم اہداف طے
کوئٹہ ریلوے اسٹیشن
کوئٹہ ریلوے اسٹیشن ایک لحاظ سے بہت بڑا اسٹیشن بھی ہے اور جنکشن بھی۔ یہ پاکستان کے بلند ترین اسٹیشنوں میں سے ایک ہے، جس کی بلندی 5500 فٹ ہے۔ یہاں روہڑی، سبی، کوئٹہ لائن جو ایم ایل3 کا پہلا حصہ ہے، آکر اختتام پزیر ہوتی ہے۔ پھر ایک اور لائن کوئٹہ سے افغانستان کی سرحد پر واقع چمن تک چلتی ہے، جس کو ایم ایل3 کا توسیعی حصہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان کے کسی بھی حصے سے آنے والی مسافر گاڑی براہ راست چمن تک نہیں جاتی۔ کوئٹہ اتر کر گاڑی بدلنا پڑتی ہے، کیونکہ وہ بہرحال ایک برانچ لائن ہی تصور کی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں واٹس ایپ اور انسٹاگرام تک رسائی میں مشکلات: سینکڑوں شکایات کے باوجود حکومت بے خبر
دو ممالک کے راستے
کوئٹہ جنکشن سے ایک اور گاڑی نوشکی، دالبندین کی طرف سے ہوتی ہوئی پہلے پاکستان، ایران کے سرحدی قصبے تفتان اور بعد ازاں ایران کے اندر واقع ایرانی شہر زاہدان تک چلی جاتی ہے۔ گویا کوئٹہ پاکستان کا ایک ایسا منفرد اسٹیشن ہے جہاں سے بیک وقت دو مختلف ممالک کی سرحدوں تک براہ راست گاڑیاں جاتی ہیں۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔