سابق بریگیڈیئر راشد نصیر اور سابق میجر عادل راجہ کے درمیان ہتک عزت کے ہائی پروفائل کیس کی سماعت مکمل
ہائی پروفائل ہتک عزت کیس کا اختتام
لندن (مجتبیٰ علی شاہ) سابق بریگیڈیئر راشد نصیر اور سابق میجر عادل راجہ کے درمیان ہتک عزت کے ہائی پروفائل کیس کی سماعت مکمل ہوگئی، ہائی کورٹ کے ڈپٹی جج رچرڈ اسپئیر مین نے عادل راجہ کے ارشد شریف کے قتل میں آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کے دعوے کو رد کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: بابراعظم پر جنسی ہراسانی کا الزام، اندراج مقدمہ کے لیے رجوع کرنے والی خاتون لاہور ہائی کورٹ طلب
جج کا فیصلہ
جج رچرڈ اسپیئرمین نے کہا کہ پاکستان کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں ارشد شریف قتل کی ذمہ داری آئی ایس آئی پر عائد نہیں کی گئی۔ عادل راجہ کے وکیل سائمن ہارڈنگ نے کہا کہ رپورٹ میں آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کے نتیجہ کو “جگسا” کی طرح سمجھنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: اب کے جو نشیبوں میں پرواز ہماری ہے
سماعت کے دوران ریمارکس
جج نے ریمارکس دیئے کہ رپورٹ دیکھ چکا ہوں، اگر آئی ایس آئی کا قتل میں ہاتھ ہوتا تو رپورٹ میں اس کا واضح ذکر ہوتا۔ سماعت کے آخری دن عادل راجہ کی وکیل سے کہا گیا تھا کہ وہ ثابت کریں کہ ان کے موکل کی اشاعتیں عوامی مفاد میں تھیں۔ وکیل سے پوچھا گیا کہ ان کے ذرائع کی ساکھ کیا تھی اور اسٹوریز موجود بھی تھیں یا تخلیق کی گئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ مریم نواز کی زیر صدارت محرم الحرام کے انتظامات کے حوالے سے خصوصی اجلاس، اہم فیصلے، فوری ہنگامی پلان طلب
راشد نصیر کا موقف
راشد نصیر کے وکیل سے کہا گیا کہ وہ ثابت کریں کہ ان اشاعتوں کے نتیجہ میں ان کے موکل کو برطانیہ میں شدید نقصان پہنچا۔ عادل راجہ کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل تسلیم کرتے ہیں کہ الزامات سنگین تھے لیکن ان سے کوئی نقصان نہیں ہوا۔ راشد نصیر نے اپنے نقصان کے ثبوت بھی عدالت میں پیش نہیں کئے اور ذرائع کی شناخت ان کے جان کو خطرے کے سبب ظاہر کرنا ممکن نہیں۔
کیس کا دفاع اور شواہد
جج نے ریمارکس دیئے کہ کیس کا دفاع کرنے والے کے پاس اپنے کیس کی حمایت کیلئے کوئی مفاد نہیں نہ کوئی ٹیکسٹ اور نہ کوئی اسکرین شارٹ۔ جج نے مقدمہ کے آغاز میں بھی الزامات کے ثبوت پیش نہ کرنے پر تنقید کی تھی۔ عادل راجہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ صحافی کے ذرائع سے حاصل کئے گئے مواد کو سچ مانا جاتا ہے اور عوامی مفاد میں شئیر کیا جاتا ہے۔








