آسٹریلیا کا 16 سال سے کم عمر بچوں پر یوٹیوب کے استعمال پر پابندی کا اعلان

آسٹریلیاکا سوشل میڈیا پابندی کا فیصلہ
میلبرن (ڈیلی پاکستان آن لائن) آسٹریلیا نے بچوں کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال پر دنیا کی پہلی جامع پابندی کے تحت یوٹیوب کو بھی شامل کر لیا ہے۔ ابتدائی طور پر ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم یوٹیوب کو اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا، تاہم اب حکومت نے یہ فیصلہ واپس لیتے ہوئے یوٹیوب کو بھی ان پلیٹ فارمز میں شامل کر دیا ہے جن پر پابندی دسمبر سے نافذ ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر کے اضافی اختیارات: حکومت و بزنس کمیونٹی میں اہم مذاکرات آج ہونگے
پابندی کی تفصیلات
رائٹرز کے مطابق اس پابندی کے تحت 16 سال سے کم عمر بچے یوٹیوب ویڈیوز تو دیکھ سکیں گے، لیکن انہیں پلیٹ فارم پر اکاؤنٹ بنانے کی اجازت نہیں ہوگی، جو ویڈیوز اپ لوڈ کرنے یا کمنٹس جیسے انٹریکشن کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ سندھ کا باکسر عثمان وزیر کی مالی امداد اور سہولیات دینے کا اعلان
حکومتی موقف
آسٹریلیا کی ای سیفٹی کمشنر جولی انمین گرانٹ نے یوٹیوب کو پابندی میں شامل کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ 10 سے 15 سال کی عمر کے بچوں میں نقصان دہ مواد دیکھنے کے حوالے سے یہ سب سے زیادہ رپورٹ ہونے والا پلیٹ فارم ہے۔
وزیر اعظم انتھونی البانیز نے بدھ کے روز میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ سوشل میڈیا ہمارے بچوں کو نقصان پہنچا رہا ہے اور میں آسٹریلوی والدین کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ حکومت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں جائیداد کے تنازعات پر فائرنگ، 5 افراد قتل
دیگر پلیٹ فارمز پر پابندی
پابندی کا اطلاق ٹک ٹاک، انسٹاگرام، فیس بک، ایکس (ٹویٹر) اور اسنیپ چیٹ پر بھی ہوگا۔ آن لائن گیمنگ، میسجنگ، تعلیمی اور صحت سے متعلق ایپس کو اس پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ کم عمر صارفین کے لیے نسبتاً کم خطرناک سمجھی جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: معرکہ حق کی گونج، ابرار الحق نے بھارت کی شکست پر نیا ترانہ جاری کردیا
قانون کی خلاف ورزی پر جرمانے
اگر ٹیک کمپنیاں اس قانون کی خلاف ورزی کرتی ہیں تو انہیں 5 کروڑ آسٹریلوی ڈالر (تقریباً 32.5 ملین امریکی ڈالر) تک کا جرمانہ ہوسکتا ہے۔ کمپنیوں کو موجودہ کم عمر صارفین کے اکاؤنٹس بند کرنا ہوں گے اور نئے اکاؤنٹس کے اندراج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
بین الاقوامی منظرنامہ
یاد رہے کہ ناروے پہلے ہی ایسی پابندی کا اعلان کرچکا ہے، جب کہ برطانیہ بھی اس پر غور کر رہا ہے۔ مزید تفصیلات آسٹریلوی پارلیمنٹ میں پیش کی جائیں گی۔