بوستان جنکشن سے اگلا اسٹیشن ”یارو“ ہے، اس کو دیکھتے ہی گانا یاد آجاتا ہے ”یارو مجھے معاف کرو میں نشے میں ہوں“ نشہ تو یارو کے قریب بھی ہے۔
مصنف
محمد سعید جاوید
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی مسلم ورلڈ لیگ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات
قسط
203
یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی سے غیر ملکی سرمایہ کار کمپنیوں کے وفد کی ملاقات
1980ء کی دہائی میں ریلوے کی حالت
سن 1980ء کی دہائی میں اس ریل گاڑی نے بھی دیگر برانچ لائنوں کی طرح آخری ہچکیاں لینا شروع کر دیں۔ ایک بار پھر مالی خسارے کا رونا رو کر 1986ء میں اس لائن کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔ ریلوے کے محکمے والوں نے یہ پٹریاں اکھاڑ کر انھیں 30 کروڑ روپے میں نیلام کر دیا، اور باقی بچا ہوا سامان مقامی لوگوں نے بیچ کھایا۔ یہ نیرو گیج پٹری اب آئندہ کسی کام آنے والی نہیں تھی، اس لیے خریداروں نے اس کا لوہا پگھلا کر دیگر کاموں میں لگا دیا۔
یہ بھی پڑھیں: جنوبی کوریا میں منگل کی رات مارشل لا کا اعلان: پارلیمنٹ کی چھت پر ہیلی کاپٹر، باڑیں پھلانگتے اراکین اسمبلی اور ’میرے ہم وطنو‘ کا معاملہ کیا تھا؟
مستقبل کے منصوبے
مستقبل میں اگر یہاں کبھی کوئی پٹری بچھانے کی ضرورت محسوس کی گئی تو ظاہر ہے وہ بھی سارے پاکستان کی طرح براڈ گیج ہی ہو گی، جو کوئٹہ چمن لائن کے ساتھ جا ملے گی۔ شنید ہے کہ سی پیک منصوبے کے تحت چین والے ایک بار پھر اس روٹ کو استعمال کرکے اس پر ریلوے کی نئی پٹری اور جدید مواصلاتی نظام نصب کرنے کا پروگرام ہے، جو پاکستان کا تیسرا اور مغربی روٹ کہلائے گا، جو بعدازاں حویلیاں سے ہوتے ہوئے چین کی سرحد پر واقع خنجراب تک جا پہنچے گا۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں غزہ جنگ بندی کیلئے قرارداد کثرت رائے سے منظور
آخری سفر کی کہانی
اس ریلوے لائن کے بند ہونے سے کچھ دن پہلے ان کے انجنوں، بوگیوں اور مال گاڑیوں نے اپنا آخری سفر مکمل کیا تھا۔ انجن تو نہ جانے کدھر گم ہو گئے، لیکن بوستان ریلوے اسٹیشن کے آس پاس چھوٹی چھوٹی کھلونا نما مسافر بوگیاں اور مال گاڑیوں کے ڈبے اب تک کھڑے ہیں، اور اپنے سنہری دور کو یاد کر کے روتے ہیں۔ یہ اب پاکستان میں کسی کام کے نہیں رہے تھے، اس لیے انہیں گئی گزری تاریخ کا حصہ سمجھ کر نکال باہر کیا گیا ہے۔ ان پر سفر کرنا تو درکنار، کوئی دوسری نظر بھی نہیں ڈالنا گوارا نہیں کرتا۔
یہ بھی پڑھیں: ابھی عمران خان کی رہائی ہوتی نظر نہیں آرہی، علیمہ خان
موجودہ حالات
اب چونکہ یہاں ریل گاڑی چلنا بند ہو گئی ہے، تو ساری معدنیات، پھل اور سبزیاں وغیرہ تیز رفتار ٹرکوں اور ٹریلیوں کے ذریعے دوسرے شہروں کو بھیجی جاتی ہیں۔ لگتا ہے ہم اپنی منزل سے بھٹک کر کہیں دور جا نکلے ہیں، لیکن کیا کیجیے کہ بلوچستان میں اتنے خوبصورت اور مشہور مقامات ہیں کہ ان سے صرفِ نظر کرکے چپ چاپ آگے بڑھ جانا ممکن نہیں ہے۔ ہم بہرحال دوبارہ اپنی کوئٹہ سے چمن جانے والی ریل گاڑی پر چڑھتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ کا گوجرانوالہ میں 13 سالہ گھریلو ملازمہ کے قتل کا نوٹس، آر پی او سے رپورٹ طلب
بوستان جنکشن اور یارو اسٹیشن
بوستان جنکشن سے اگلا اسٹیشن "یارو" ہے، عجیب سا نام ہے نا! اس کو دیکھتے ہی گانا یاد آجاتا ہے "یارو مجھے معاف کرو میں نشے میں ہوں"۔ نشہ تو یارو کے قریب بھی ہے۔ یہ گو ایک چھوٹا سا اسٹیشن ہے، لیکن بہت اہم ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں سے ایک سڑک تقریباً 10 کلومیٹر کا سفر طے کر کے بلوچستان کے ایک اور اہم اور تاریخی قصبے پشین پہنچتی ہے، جو ایک بہت ہی خوبصورت اور سرسبز علاقہ ہے؛ جہاں پھلوں کے باغات اور ہرے بھرے کھیت حد نظر تک پھیلے ہوئے ہیں۔
پشین کی خصوصیات
یہاں انار، سیب، انگور اور آلو بخارہ کے علاوہ ناشپاتی اور چیری کے بڑے بڑے فارم بھی ہیں۔ کہیں کہیں پستہ اور بادام بھی اگائے جاتے ہیں۔ ہر قسم کی سبزیوں، پیاز، تربوز، خربوزے وغیرہ کے کھیت بھی جا بجا نظر آ جاتے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)؛ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








