جو کوئی کسی سیاسی جماعت کا آلۂ کار بنے اسے سرکاری نوکری سے ہی فارغ کردینا چاہیے مگر سوال یہ ہے ”بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا“

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 244
یہ بھی پڑھیں: میو ہسپتال کے شعبہ امراض قلب کی ابتر صورتحال، مریضوں کی بد دعائیں، حکومت سے فوری ایکشن لینے کا مطالبہ
مہربانی کی مثال
سر! مہربانی کرنا؛ شام کو وہ میرے دفتر چلے آئے اور کئی گھنٹے بیٹھ کر سارا پنڈنگ کام مکمل کیا۔ان سے شناسائی اچھی یاد اللہ میں بدل گئی۔ ایک روز میں، وہ اور جہلم سے آئے ان کے کولیگ گپ شپ لگا رہے تھے کہ ایک وکیل صاحب بڑے ادب سے جھکے ان کے دفتر داخل ہوئے اور خوش آمدی مسکراہٹ سے ایک درخواست ان کے آگے رکھتے بو لے؛ "جناب! ذرا مہربانی فرما دیں۔" انہوں نے دستخط کر دئیے۔ وہ چلا گیا۔ ان کا کولیگ کہنے لگا؛ "یار! اے مہربانی کونسا قانون ہے۔" وہ مسکراتے بولے؛ "ماتھڑ ساتھیاں دا مہربانی ہی قانون اے۔ اس مہربانی دے بدلے اس نے سو دو سو روپے لے لئے ہوں گے۔"
یہ بھی پڑھیں: بھارت کا مشہور اور تاریخی فلمی سٹوڈیو 183 کروڑ بھارتی روپے میں فروخت کردیا گیا
ملکی قوانین اور روایات
اس ملک میں مہربانی اور "تھوڑی" (chin) کو ہاتھ لگانا بھی رحم دلی کا "غیر تحریری" unwritten قانون ہے جیسے محکمہ مال کا unwritten قانون ہے کہ "ہر آئے گئے افسر کی خدمت اور چائے پانی کا انتظام کر نا۔" یہ ہے بھی درست کہ کوئی بھی پٹواری، گرداور یا تحصیل دار اپنی جیب سے افسر کی خدمت کے اخراجات تو برداشت کرنے سے رہا۔ اس کا بوجھ آخر کار سائل کو ہی برداشت کرنا ہوتا ہے۔ بعد میں وہ نصراللہ صاحب سیکرٹری ریونیو بورڈ رہے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران بندرگاہ دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 70 ہو گئی
نگران حکومت کے دور میں تبدیلیاں
1993ء کا جنرل الیکشن آیا تو معین قریشی نگران وزیر اعظم بن گئے۔ انہوں نے آتے ہی گریڈ 17 اور اس سے اوپر سبھی افسران کا تبادلہ کر دیا کہ شفاف الیکشن کے لیے یہ پہلا قدم تھا۔ میں بھی کھاریاں سے اگست 93 میں گوجرانوالہ صدر ٹرانسفر ہوا۔ جہاں مجھے انتخابات کے بعد تک کا وقت تو گزارنا تھا۔ اب کوئی پوچھے کیا شفاف الیکشن کے لیے ضروری ہے کہ افسران کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیج دیا جائے؟ نئی جگہ جا کر بھی افسر کا اختیار وہی رہتا ہے۔ یہ کیوں تربیت کا حصہ نہیں کہ سرکاری ملازموں کا کام عوام کی بہتری اور سرکار وقت کی پالیسیوں پر عمل درآمد ہے نہ کہ سیاسی جماعتوں کا آلۂ کار بننا؟ جو کوئی کسی بھی سیاسی جماعت یا اس کے کسی کارندے کا آلۂ کار بنے تو اسے سرکاری نوکری سے رخصتی کا پروانہ دے کر نوکری سے ہی فارغ کردینا چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ "بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔"
یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی اور اہلیہ کو قانون کے مطابق جیل میں تمام سہولیات دستیاب ہیں، ترجمان جیل خانہ جات
سیکرٹری کم حکیم زیادہ
دیہی ترقیاتی مرکز گوجرانوالہ کا دفتر ضلع کچہری میں واقع تھا۔ شیخ عارف یہاں اکاؤنٹنٹ تھا جبک سب انجینئر کی پوسٹ خالی تھی اور 7 سیکرٹری یونین کونسلز محمد ریاض، محمد یونس بٹ، جاوید اقبال، غلام رسول، سردار خان اور حسین رضا تھے۔ جلد ہی میری ان سب سے اچھی انڈرسٹنڈنگ ہو گئی تھی۔ اکاؤنٹس کلرک عارف تیز اور چالاک جبکہ باقی عملہ اچھے ورکر اور سیانے تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔