پی ٹی آئی رہنماؤں کو 9 مئی کے مقدمات میں سزائیں، سربراہ پلڈاٹ بلال محبوب کا اہم بیان

بلال محبوب کا 9 مئی کے مقدمات پر ردعمل
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سربراہ پلڈاٹ سربراہ بلال محبوب نے پی ٹی آئی رہنماؤں کو 9 مئی کے مقدمات میں سزاؤں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سزاؤں کا بنیادی مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ یہ سوچ تھی کہ یہ واقعات اور مقدمات صحیح ہیں تو ان پر تیزی سے کام ہونا چاہئے تھا۔ مقدمات کی سنگین نوعیت کے پیش نظر فیصلے جلدی آ جانے چاہئے تھے۔ جب جرم کے اتنے عرصے کے بعد سزا سنائی جاتی ہے تو اس کا اثر کم ہو جاتا ہے۔ بہرحال یہ ضروری ہے کہ اس کا کوئی نہ کوئی سدباب ہونا چاہئے، اس فیصلے کا کوئی اختتامیہ ہونا چاہئے، کیونکہ یہ اہم مقدمات تھے، ان کو لٹکائے رکھنا درست نہیں تھا۔ اب ظاہر ہے کہ فیصلے ہوئے ہیں، ان کے خلاف اپیل کا پروسیس بھی شروع ہو سکتا ہے اور لوگ لٹکے نہیں رہیں گے۔ امید کرنی چاہئے کہ انصاف جس طرح بھی ہو سکے گا، وہ ان کو مہیا ہوگا، ان کو بھی اور ریاست کو بھی اور ملک کو بھی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کی پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی کسی صورت قبول نہیں: وزیراعظم
سیاسی تناظر میں سزاؤں کا اثر
ان کا مزید کہنا تھا کہ دیکھیں جب بھی کسی سیاستدان کو ہٹایا جاتا ہے یا اس کو سزا ہوتی ہے تو اس کا ایک سیاسی رنگ ضرور ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو وکٹم کے طور پر پیش کر سکتے ہیں اور لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ یہ مظلوم ہیں اور اس کا پھر ہمدردی کا فائدہ انہیں پہنچتا ہے۔ آپ نے دیکھا، ماضی میں جتنی بھی حکومتیں ہٹائی گئی ہیں، خواہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ہو یا نوازشریف یا عمران خان کی، جب وہ ہٹتے ہیں تو لوگوں کی ہمدردی کی ایک لہر جو ان کے حق میں اٹھتی ہے۔ یہی حال مقدمات کا ہوتا ہے۔ یہ تو درست ہے کہ اس کی سیاسی ہمدردی تو انہیں حاصل ہوگی، اس کیلئے حکومت کو بہت محنت کرنی پڑے گی کہ یہ ثابت کرنے کیلئے کہ جو سزائیں سنائی گئی ہیں واقعی وہ اس کے مستحق تھے اور یہ کہ یہ سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جا رہا۔
یہ بھی پڑھیں: ویمنز انڈر19 ٹی 20 ایشیا کپ: بھارت کے خلاف پاکستان کی پہلی وکٹ 12 رنز پر گر گئی
مقدمات کی سنگینی اور وقت کا اثر
سربراہ پلڈاٹ کا مزید کہنا تھا کہ 9 مئی انتہائی سنگین جرائم تھے۔ اس کا یقیناً جن لوگوں نے یہ کام کیا یا اکسایا، اس کی سزا انہیں ملنی چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن غلطی یہ ہوئی ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اس کی جو سنگینی ہے وہ لوگوں کے ذہنوں میں کم ہو گئی ہے۔ لوگ یہ محسوس کرتے رہے ہیں کہ چونکہ اتنی دیر گزر گئی ہے، ان کے پاس ثبوت نہیں ہیں، اس لئے یہ سیاسی قسم کے مقدمات ہیں۔ اگر اس وقت سزائیں ہوتیں، وقت کے اوپر، دن رات لگا کر لوگوں کو سزائیں دی جاتیں تو پھر شاید لوگوں کا یقین اس انصاف کے پروسیس میں زیادہ ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں: بچوں کے محفوظ مستقبل کے لیے پولیو کا خاتمہ ضروری ہے: وزیراعظم
عدالتوں کی تیزی اور نظام انصاف
انہوں نے کہا کہ آپ کو یاد ہے برطانیہ میں جب ہنگامے ہوئے تھے تو عدالتوں نے 24،24 گھنٹے کام کرکے اس کا جلدی فیصلہ کیا تھا تاکہ لوگوں کے اوپر اس کا اثر ہو۔ تو لوگ یہ نہ سمجھیں کہ اسے ہلکے پھلکے انداز میں لیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے ہمارا نظام انصاف اتنا کمزور ہے کہ یہ کام وقت پر نہیں ہوا، اس کا نقصان ہوگا۔ لوگوں کے ذہنوں میں جو تاثر پیدا ہوگا، وہ ویسا نہیں ہو گا جو اس وقت اگر فیصلہ ہو جاتا تو پیدا ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں: آپ دوسروں کے بغیر کچھ بھی نہیں، وہ رویہ اپنائیں جس میں اپنے آپ پر اعتماد، یقین، بھروسے اور صلاحیت کے استعمال میں مہارت کا اظہار ہو۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کے مقدمات کی تشریح
پی ٹی آئی کے پریس کانفرنس رہنماؤں کے حوالے سوال کے جواب میں بلال محبوب نے کہاکہ حال ہی میں شاہ محمود قریشی کو ایک مقدمے میں بری کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ ایک مقدمہ ہے، شاہ محمود قریشی نے کوئی معافی نہیں مانگی اور دو سال زائد سے وہ اندر ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کے سینئر ترین لوگوں میں سے ہیں۔ میرا خیال ہے ان کا کیس اتنا مضبوط تھا کہ انہیں بری کرنا پڑا۔ میں نہیں جانتا کہ فواد چودھری کا کیس کیا ہے، لیکن تاثر یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ جو لوگ معافی مانگ لیں، حالانکہ فواد چودھری نے معافی بھی نہیں مانگی۔ انہوں نے ایک تاثر دیا تھا کہ وہ آئی پی پی میں شامل ہو گئے ہیں، لیکن پھر وہ پی ٹی آئی کے ساتھ رہے اور ان کے بیانات ہیں، وہ سارے پی ٹی آئی کے حق میں ہی تھے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب سے سپیکر ملک محمد احمد خان اور ارکان اسمبلی عاصم میکن اور خرم ورک کی ملاقاتیں
مرحلہ وار اپیل کے مواقع
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ دونوں پارٹیاں پی ٹی آئی اور ان کی مخالف پارٹیاں کتنے موثر طریقے سے اپنی کمیونیکشن کرتے ہیں۔ کیونکہ آج کے زمانے میں آپ اپنی بات کو کس طرح سے بیان کرتے ہیں، کتنا لوگوں کو قائل کر پاتے ہیں۔ آپ کی بات ٹھیک ہے کہ سزاؤں سے یہ بیانیہ تو بنے گا، لیکن موثر طریقے سے آپ لوگوں کو یہ بیانیہ بیچتے ہیں۔ چونکہ یہ حتمی سزا نہیں ہے، اب اس کی اپیلیں بھی ہو سکتی ہیں۔
عدالتی نظام اور وکلا کی اہمیت
سربراہ پلڈاٹ نے کہاکہ ان لوگوں کے پاس دو فورم ہیں: ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض اوقات مقدمات میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک کورٹ میں آپ کو سزا ہو جائے تو پھر آپ انٹراکورٹ اپیل بھی کر لیتے ہیں۔ ان مقدمات میں آپ کو ایک اور فورم مل جاتا ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی سزا ہو جائے گی تو پھر نظرثانی میں چلے جاتے ہیں، لیکن وہ وکلا کی چابک دستی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کتنے اچھے طریقے سے کیس کو پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح سے پلیٹ فارم بڑھتے چلے جائیں گے، سزاؤں کے ختم ہونے اور کم ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔