پرانے منشی نے میری کارکردگی دیکھتے ہوئے کہا علیٰحدہ آفس قائم کریں میں آپ کو بہت سارے کیس لا کے دوں گا، اکیلے کام کرنے کا تجربہ بھی ٹھیک رہا۔

شروع کا خیال
مصنف: راناؒ امیر احمد خاں
قسط: 113
سینئر ایڈووکیٹ رانا محمد سرور کے ساتھ کام کرتے ہوئے مجھے 10 سال ہو چکے تھے کہ 2000ء میں مجھے خیال آیا کہ میں اپنا الگ سے انڈیپنڈنٹ آفس قائم کروں۔ چنانچہ 2 ہزار روپے ماہانہ پر فاطمہ ہاؤس 13 فین روڈ کرایہ پر دفتر حاصل کر کے اور مزید 1 لاکھ روپے سرمایہ خرچ کر کے اُس آفس کو فرنش کیا۔ علیٰحدہ آفس قائم کرنے کا مجھے مشورہ ایک جانے پہچانے تجربہ کار پرانے منشی وکیل نے رانا سرور کے آفس میں میری کارکردگی دیکھتے ہوئے دیا تھا کہ آپ اپنا علیٰحدہ سے آفس قائم کریں۔ میں بھی آپ کو بہت سارے کیس لا کے دوں گا جو کیس میں دوسرے وکیلوں کو دیتا ہوں، آپ کو دیا کروں گا۔ چنانچہ علیٰحدہ آفس قائم کر کے خود اکیلے کام کرنے کا تجربہ بھی ٹھیک رہا۔
یہ بھی پڑھیں: ایم ون موٹروے پر مسافر بس کا گیس سلنڈر پھٹ گیا، ہلاکتیں
نئی شروعات
ابھی 13 فین روڈ پر اپنے نئے چیمبر میں خود سے کام کرتے ہوئے 3 سال ہوئے تھے کہ 2003ء میں میرے پہلے سینئر ایڈووکیٹ ایم اے حئی خاں جن کے پاس میں نے ایک سال رہ کر بھی کچھ نہیں سیکھا تھا، اُن کا بیٹا میرے پاس آیا کہ اُن کے والد شدید بیمار ہو گئے ہیں۔ اُن کو فالج ہو گیا ہے، اس لئے آپ اُن کے آفس میں آجائیں اور اُن کے سارے پرانے کیس آپ کریں اور جو فیس اُن سے ملے اُس میں سے آدھی فیس ہمیں دے دیا کریں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ پرانے کیسوں میں پیشگی فیس وصول کر چکے تھے، مجھے وہاں بڑی فیس نہیں ملے گی۔ بہرحال میں نے اُن کی بیماری کے پیش نظر اپنا آفس چھوڑ دیا اور اُسی پرانے آفس میں جا کر نئے سرے سے کام کا آغاز کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک، اقوام متحدہ نے بھارت سے جواب طلب کر لیا
مشکلات کا سامنا
وکالت میں آتے ہی پہلا سال تو انتہائی مشکل تھا کیونکہ میرے پہلے سینئر استاد ایڈووکیٹ ایم اے حئی خاں مجھے وکالت سکھانے میں عدم دلچسپی رکھتے تھے۔ دوسرا ایک سال مجھے اپنے دوسرے سینئر اور حقیقی استاد سینئر ایڈووکیٹ رانا محمد سرور سے وکالت کے رموز و نکات سمجھنے اور سیکھنے میں لگا۔ اس عرصے میں مجھے دواڑھائی لاکھ روپے جو فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن کی نوکری چھوڑنے کے بعد ملے تھے، اُس سے ہم نے بڑی کفایت شعاری سے گزارہ کیا۔ جبکہ گارڈن ٹاؤن لاہور میں ہمارے جدید تعمیر شدہ مکان کے بالائی پورشن کی کرایہ داری سے بھی 2 ہزار روپے ماہانہ آمدن شروع ہو گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: رینجرز لاہور میں طلب کیے گئے
دلچسپ تجربات
میرے سینئر رانا محمد سرور جو انتہائی دل پذیر شخصیت کے مالک تھے اور بہت اچھے استاد بھی تھے، انہوں نے اپنے ہر اس کیس میں جس میں میں نے اُن کی معاونت کی ہوتی تھی، میرے کہے بغیر ازخود بخوشی فیس کا کچھ حصہ مجھے دینے لگے تھے۔ یہ اعلیٰ ظرفی سینئر وکیلوں میں شاذ و نادر ہی پائی جاتی ہے۔ 50 سال کے بعد کی عمر میں میں نے وکالت کا فن انتہائی جانفشانی سے دن رات کام کرتے ہوئے سیکھا۔ وکالت شروع کرنے کے ٹھیک 2 سال بعد پنجاب بار کونسل کو درخواست دینے پر مجھے ہائی کورٹس میں پیش ہونے اور کام کرنے کا لائسنس بھی مل گیا۔
آگے کی راہیں
چونکہ میں اپنے سینئر کے ساتھ تقریباً ہر روز ہائی کورٹس میں پیش ہو رہا تھا، میں اپنے سول کورٹس میں کام کرنے والے وکیل دوستوں میں ہائی کورٹ کے وکیل کے طور پر پہچانا جانے لگا۔ میری آمدن معقول تھی جس میں ہم بخوبی گزارہ کر رہے تھے لیکن اتنی آمدن نہیں تھی کہ ہم بچوں کی تمام خواہشات پوری کر سکیں۔ میں انڈرہینڈ طریقوں سے وکالت کرنے اور فیسیں بنانے کا بھی قائل نہ تھا۔ جس کیس میں تھوڑی بھی جان ہوتی تھی وہ میں ضرور لیتا تھا لیکن ایسا کیس جو کسی طور پر بنتا ہی نہ ہو، میں لینے سے صاف انکار کر دیتا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔