کھوجک سرنگ کے لیے ہزاروں مزدور لائے گئے، رہائش کا انتظام بڑے میدان میں کیا گیا، ان کی تفریح کے لیے فنکار بلائے گئے جن میں ”شیلا رانی“ بھی شامل تھیں۔

مصنف کی تفصیلات
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 206
یہ بھی پڑھیں: ایران میں مسلح افواج کے دن پر فوجی پریڈ، نئے ڈرونز اور جدید میزائل سسٹم کی رونمائی کردی گئی
شیلا باغ کا تاریخی پس منظر
کہتے ہیں جب کھوجک سرنگ زیر تعمیر تھی تو یہاں نہ صرف ہندوستان بلکہ کئی غیرملکیوں سے ہزاروں کی تعداد میں کاریگر اور مزدور لائے گئے تھے۔ جن کی رہائش کا انتظام یہیں ایک بڑے میدان میں کیا گیا تھا، جہاں اب یہ اسٹیشن ہے۔ پہاڑوں کا سینہ چیر کر سرنگ بنانا بہت مشکل کام تھا۔ مزدور سارا دن جان توڑ مشقت کرتے اور جب شام کو تھک کر اپنے ٹھکانوں پر واپس آتے تو ان کی تفریح طبع اور کھیل تماشے کے لیے ہندوستان سے کچھ نامی گرامی مسخرے، بازیگر اور فنکار لائے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ایک من سے زیادہ وزنی دنیا کا سب سے بڑا مگرمچھ مرگیا
شیلا رانی کی یادگار
اس طائفے میں اپنے وقتوں کی ایک خوبرو اور حسین سی رقاصہ بھی شامل تھی جس کا نام شیلا رانی تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ اتنی بے خود ہو کر ناچتی تھی کہ وہاں بیٹھے ہوئے کاریگر اور مزدور عش عش کر اٹھتے تھے، ان کی تھکاوٹ دور ہو جاتی تھی اور پھر وہ سکون سے سو جاتے تھے۔ بس اسی بی بی کے نام پراس جگہ کا نام شیلا باغ پڑ گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کل کے بیان پر شرم آنی چاہیے، پی ٹی آئی نے عہدوں کا ناجائز اور غلط استعمال کیا:طلال چودھری
شیلا کی تاثیر
پس اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ دور جدید کی شیلا کی طرح پچھلے وقتوں کی شیلا کی جوانی بھی انتہائی جان لیوا تھی، اور بیک وقت ہزاروں مزدور کام کاج کی تھکن بھول کر اس پر قربان ہونے کے لیے تیار رہتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے ساتھ کشیدگی کم کرنے میں روس کردار ادا کرے، یوسف رضا گیلانی
چیف انجینئر کی خودکشی کی کہانی
دوسری کہانی ایک ڈراؤنی اور قدرے خوفناک سی ہے۔ وہ معاملہ تھا سرنگ بنانے والے چیف انجینئر کی مبینہ خودکشی کا، جس کی تفصیل کے لیے ایک ذرا انتظار۔ یہ قصہ صحیح موقع پر ہی مناسب لگے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ میں مرغی کا گوشت مزید 100 روپے فی کلو مہنگا
شیلا باغ ریلوے اسٹیشن کی تعمیر
شیلا باغ ریلوے اسٹیشن کھوجک سرنگ کی تکمیل کے بعد بنا تھا لیکن وہاں تک ریل کی پٹری پہلے ہی بچھ گئی تھی۔ اس سے قبل یہاں تعمیراتی سامان اور مشینوں کے ڈپو اور سرنگ میں کام کرنے والے عملے کے رہائشیں اور خیمے وغیرہ نصب تھے۔
یہ بھی پڑھیں: شوہر کے مبینہ تشدد سے بچ کر اٹلی پہنچنے والی پاکستانی خاتون کی کہانی: ‘شادی کی تصویر کزن سے ملنے پر تشدد شروع ہوا’
موسم سرما اور برف باری
شیلا باغ کا اسٹیشن سطح سمندر سے کوئی 6700 فٹ بلند ہے اس لیے یہاں موسم سرما میں جی بھر کے برف باری ہوتی ہے۔ سارا اسٹیشن اور گاڑی کی پٹری برف سے اس حد تک ڈھک جاتی ہے کہ سوائے برف کے اس علاقے میں کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ گاڑی کم برف میں تو کھینچ تان اور زور زبردستی کر کے اپنا راستہ بنا لیتی ہے تاہم اگر برف باری بہت زیادہ ہو جائے تو یہ گاڑی حالات سدھرتے تک اپنا سفر معطل کر دیتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ریکوڈک سے کتنے ارب ڈالرز کا سونا اور تانبا نکالا جاسکتا ہے۔۔۔؟ کینیڈا کی مائننگ فرم کے سی ای او کا تہلکہ خیز انکشاف
نئے سرے سے ترقی اور ماڈل اسٹیشن کی تشکیل
آج کل اس اسٹیشن کی عمارت پر محکمہ ریلوے بہت توجہ دے رہا ہے۔ عسکری ادارے کے تعاون سے اس کی نئے سرے سے تعمیر اور تزین و آرائش کی گئی ہے اور اس کو ایک ماڈل اسٹیشن بنا دیا گیا ہے جس میں ایک چھوٹا سا عجائب گھر بھی بنایا گیا ہے جو کھوجک پہاڑ، سرنگ اور شیلا باغ اسٹیشن کے بارے میں سیاحوں کو معلومات دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل: مقدمے کی جلد سماعت کیلئے درخواست سپریم کورٹ میں دائر
عجائب گھر کی خصوصیات
سرنگ کی تعمیر کے دوران بنائی گئیں کچھ تصاویر، کھدائی میں استعمال ہونے والے اوزار اور علاقے کے ماڈل بھی رکھے گئے ہیں، باہر ڈیزل انجن کا چھوٹا سا ماڈل بنا کر بھی کھڑا کردیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نادیہ جمیل نے ’بیوی کو شوہر کی ماں بننے سے‘ متعلق بیان پر وضاحت دے دی
مستقبل کے منصوبے
اس نئی عمارت کی تعمیر ہو بہو برطانوی دور کی بنائی ہوئی اصلی عمارت کی طرح ہی کی گئی ہے۔ یہاں ہوٹل اور ریسٹورنٹ وغیرہ بنانے کا منصوبہ بھی بنایا جا رہا ہے۔ بلوچستان حکومت اسے ایک سیاحتی مقام بھی بنانا چاہتی ہے، یہ منصوبہ اس لیے بھی کامیاب ہو سکتا ہے کہ اس کے پہلو سے ہی کوئٹہ سے چمن جانے والی قومی شاہراہ بھی گزرتی ہے۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔