سیلاب صرف قدرتی آفت نہیں، اجتماعی غفلت کا آئینہ ہے۔ ہر ڈوبتا چہرہ ایک خاموش چیخ، جو ہمیں پکار رہا ہے۔۔ سنو! سنبھلو! کچھ کرو

تحریر: رانا بلال یوسف
زندگی کی بوند
کبھی کبھی زندگی صرف ایک بوند پر قائم ہوتی ہے اور جب وہ بوند بھی چھن جائے، تو وقت جیسے ساکت ہو جاتا ہے۔ پانی، جو کل تک زندگی کی سانس تھا، آج ہماری آنکھوں کا آنسو بن چکا ہے۔ اس بار بھی بادل برسے، مگر زمین کی پیاس نہیں بجھی، آنگن بہہ گئے، چھتیں ٹوٹیں اور مائیں اپنے بچوں سمیت پانی کے حوالے ہو گئیں۔ یہ تحریر بارش پر نہیں... اُن بےبس انسانوں پر ہے، جنہوں نے نہ بادلوں سے دعا مانگی، نہ طوفان کا سوال کیا، پھر بھی پانی ان کے خواب، ان کی نیندیں، اور ان کی کل کائنات بہا لے گیا۔
پانی کا مستقل المیہ
پاکستان میں پانی کا مسئلہ اب موسمی نہیں، ایک مستقل المیہ بن چکا ہے۔ ہر مون سون کے ساتھ تازہ ہونے والا زخم۔ 2010 سے لے کر 2022 کے سپر فلڈ تک (جس میں 1700 اموات اور 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے) اور اب 2025… ہم ہر سال سیلاب کی لپیٹ میں آتے ہیں، مگر سبق نہیں سیکھتے۔ ماحولیاتی ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ گرمی اور نمی کے امتزاج سے بارشوں کی شدت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ 2022 میں سندھ و بلوچستان میں معمول سے 8 گنا زیادہ بارشیں ہوئیں، جبکہ ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کے مطابق ایسی طوفانی بارشیں اب 75% زیادہ شدت کے ساتھ ہو رہی ہیں۔
ہمارے غیر مؤثر اقدامات
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2025 کے مون سون میں اب تک 299 افراد جان کی بازی ہار چکے، 700 سے زائد زخمی، اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ فصلیں تباہ، اربوں روپے کا مالی نقصان اور ہم ایک بار پھر اقوامِ متحدہ سے مدد کی اپیل کرتے ہیں۔ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے مطابق "پاکستان اس وقت مون سون آن اسٹیرائڈز" کا شکار ہے۔ مگر سوال یہ ہے: پچھلی امداد کہاں گئی؟
مظلوم دیہات
بلوچستان، خیبر پختونخوا، جنوبی پنجاب اور اندرونِ سندھ کے بے شمار دیہات پانی میں ڈوبے پڑے ہیں۔ لوگ چھتوں پر بیٹھے مدد کے منتظر ہیں؛ بچے بخار میں تڑپ رہے ہیں؛ عورتیں چولہے کے بغیر بے بسی سے بچوں کو تک رہی ہیں۔ یہ صورت حال صرف خبر ناموں میں چند لمحوں تک آتی ہے، مگر یاد رہے! کسی ماں کی چیخیں کیمرے کی خاموشی سے خاموش نہیں ہوتیں۔
سیلاب اور معاشرتی ناہمواریاں
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ سیلاب صرف پانی کا بہاؤ نہیں یہ ہمارے معاشرے کی ناہمواریوں کا بہاؤ بھی ہے؟ جہاں شہروں میں نکاسیٔ آب کے نظام موجود (اگرچہ خستہ حال) ہیں، وہیں دیہات میں مائیں اپنے بچوں کو کندھوں پر اٹھا کر کمر تک پانی میں گھس کر جانیں بچاتی ہیں۔
بیرونی تجربات
دنیا پر نظر ڈالیں نیدرلینڈز، بنگلہ دیش اور جاپان جیسے ممالک بھی کبھی پانی کے رحم و کرم پر تھے، مگر آج وہ سیلابی تباہی سے بڑی حد تک محفوظ ہیں۔ ان ممالک نے سیاسی سنجیدگی، سائنسی منصوبہ بندی، اور مقامی برادریوں کی شمولیت کو ترجیح دی۔
چالیس کی ناکامی
این ڈی ایم اے ہو یا پی ڈی ایم اے، ضلعی حکومت ہو یا وفاقی ادارے، ہر طرف خاموشی اور بے بسی طاری ہے۔ نہ بجٹ میں شفاف ترجیحات ہیں، نہ وسائل کی منصفانہ تقسیم، نہ کوئی طویل المدتی منصوبہ بندی۔
حل کی ضرورت
تو حل کیا ہے؟ ارلی وارننگ سسٹمز کو جدید بنایا جائے۔ شہروں میں نکاسیِ آب بہتر کی جائے اور برساتی نالوں سے تجاوزات فوری ہٹائی جائیں۔ سب سے اہم ہر گاؤں، ہر محلے میں مقامی واٹر ڈیفنس کمیٹیاں قائم ہوں۔
آخری سوچ
کیا آپ نے کبھی سوچا... اگر کل یہی پانی آپ کے دروازے پر آ گیا تو؟ اگر وہی کیچڑ، وہی ننگے پاؤں، وہی بے بسی آپ کے بچوں کے نصیب میں آ گئی، تو کیا تب جاگیں گے؟
عملی قدم اٹھانے کا وقت
آئیے، اب خالی وعدے نہیں عملی قدم اٹھائیں۔ ہمارے شہروں کے نالوں کو کھلا رکھنا، دریاؤں کی راہ سے تجاوزات ہٹانا، اور مقامی سطح پر سیلاب سے نمٹنے کی تیاری کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہر محلے، ہر گاؤں میں "واٹر ڈیفنس کمیٹیاں" قائم کریں۔
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔