۱۹۹۰ء کی دہائی کے آغاز میں پاکستان مسلم لیگ ۳ دھڑوں میں تقسیم ہوتی نظر آتی تھی، حامد ناصر چٹھہ خود کو نواز شریف سے زیادہ بڑا لیڈر سمجھتے تھے۔

مصنف:رانا امیر احمد خاں
قسط:121
پاکستان مسلم لیگ کی تقسیم
1990ء کی دہائی کے آغاز میں پاکستان مسلم لیگ تین دھڑوں میں تقسیم ہوتی نظر آتی تھی۔ ایک بڑے دھڑے کی سربراہی میاں نواز شریف کر رہے تھے۔ دوسرا دھڑا بچے کھچے کونسل مسلم لیگی لیڈروں پر مشتمل تھا اور تیسرا دھڑا حامد ناصر چٹھہ، اقبال احمد خاں اور میاں منظور احمد وٹو پر مشتمل تھا۔
حامد ناصر چٹھہ خود کو نواز شریف سے زیادہ لائق بڑا لیڈر سمجھتے تھے۔ وکلاء محاذ لاہور کے دوست بھی حامد ناصر چٹھہ کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ میاں نواز شریف جنرل ضیاء الحق کے پروردہ شمار ہونے کے باوجود مسلم لیگیوں کی اکثریت کو اپنے ساتھ شامل کر چکے تھے۔ اس لئے لیڈر شپ کے قحط الرجال کے اس گئے گزرے دور میں میرے مسلم لیگی دوست صرف نواز شریف کو مسلم لیگی لیڈر شپ سمجھتے تھے کیونکہ وہ بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کے مقابلے کا حوصلہ رکھتے تھے۔
دس سال پیشتر 1980ء کی دہائی میں پاکستان مسلم لیگ میں میاں محمد خان جونیجو جیسے شریف النفس، محب وطن اور دیانتدار لیڈر کی سربراہی میں نسبتاً متحد اور مضبوط تھی۔ لیکن محمد خان جونیجو اپنے جمہوری اقدامات کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق کے لئے ناپسندیدہ بن گئے۔ افسوس نواز شریف نے بھی جمہوری لیڈر شپ کا ساتھ دینے کی بجائے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دیا۔ محمد خان جونیجو کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ جلد ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔
اس طرح محمد خان جونیجو کا انتقال ہوتے ہی میاں محمد نواز شریف، فدا محمد خان کے بعد مسلم لیگ کی صدارت کے عہدہ جلیلہ پر قابض ہو گئے۔ 1993ء میں صدر پنجاب مسلم لیگ (ن) کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق صدر محمد زمان قریشی کو صدر، محمد اسلم سندھو کو جنرل سیکرٹری اور مجھے سیکرٹری اطلاعات مسلم لیگ (ن) وکلاء فورم پنجاب نامزد کیا گیا۔
وکالت اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیاسی سفر
1971ء میں پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل یحییٰ خان کے ساتھ مل کر پاکستان کو دولخت کرنے میں اپنے ذاتی اقتدار کی خاطر جو گھناؤنا کردار ادا کیا، اُس کے پیش نظر میں پیپلز پارٹی کے کردار کا ہمیشہ سے شاکی رہا ہوں۔ اسی لئے پیشہ وکالت میں آنے کے بعد اب تک میں ذاتی دوستوں کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کی حمایت میں سرگرم عمل رہا۔
اب باقاعدہ سیکرٹری اطلاعات پنجاب مسلم لیگ لائیرز فورم بننے کے بعد ایک نظم و ضبط کے تحت وکلاء کے تمام حلقوں سے مسلم لیگ کے لئے سپورٹ حاصل کرنے اور بے نظیر بھٹو حکومت کی ناقص پالیسیوں، غیر جمہوری، غیر قانونی اور منتقمانہ کارروائیوں کے خلاف تحریک چلانے کے لئے مسلم لیگی وکلاء کے ساتھ باہمی تعاون و اشتراک عمل سے مل بیٹھ کر ایک منظم جدوجہد کا فیصلہ کیا اور اس ضمن میں درج ذیل اقدامات کرنے شروع کئے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔