افغانستان کے لیے سامان چمن سے گزر کر جاتا ہے، سرحد پر موجود ادارے بھی سمگلروں پر ہاتھ ہلکا رکھتے ہیں اور ”تجارتی“ سرگرمیوں سے صرف نظر کرتے ہیں۔

مصنف کی تفصیلات
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 213
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سٹاک ایکسچینج میں 100 انڈیکس ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر
کھوجک سرنگ کی توسیع
تیسرا حل یہ سوچا گیا کہ موجودہ کھوجک سرنگ کو ہی مزید وسیع اور اونچا کر دیا جائے تاکہ ریل گاڑی اور سڑک دونوں ہی بیک وقت اس میں سے گزر جائیں۔ یہ بھی کوئی اتنا آسان کام نہیں تھا اور ایسا کرنے سے پاکستان کا ایک تاریخی ورثہ بھی تباہ ہو جاتا، جو ایک وقت میں سارے جہاں کے لیے عجوبہ اور دلچسپ مقام ہوا کرتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نوازشریف مذاکرات کیلئے 9مئی پر معافی مانگنے کا مطالبہ کریں گے: جاوید لطیف
چمن: ایک سرحدی شہر
چمن، کوئٹہ کے بعد بلوچستان کا دوسرا بڑا اور سب سے آخری سرحدی شہر ہے۔ یہاں پاکستان کی سرحد ختم ہو کر افغانستان شروع ہو جاتا ہے۔ یہ علاقہ بھی کوئٹہ کے ضلع قلعہ عبداللہ کا ایک تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہے اور اسی سطح کے انتظامی دفاتر اور ادارے بھی یہاں موجود ہیں۔ یہاں ایک فوجی چھاؤنی کے علاوہ چمن سکاؤٹس کا ہیڈکوارٹر بھی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت کرنے پر شہری قتل
تجارتی سرگرمیاں
پاکستان اور افغانستان میں باہمی تجارت ہوتی رہتی ہے اور شہریوں کا ایک دوسرے کی طرف آنا جانا لگا رہتا ہے، اس لیے یہاں کسٹم اور امیگریشن وغیرہ کے دفاتر بھی موجود ہیں۔ یہاں بڑی تعداد میں سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے ہیں جن میں کچھ تو صرف طالبات کے لیے مخصوص ہیں۔ چمن کے سارے بازار غیرملکی سامان سے بھرے پڑے ہیں جو افغانستان سے سمگلنگ کے ذریعے یہاں پہنچتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حافظ نعیم الرحمان نے غزہ میں اسرائیلی بربریت پر مسلم حکمرانوں کی کانفرنس بلانے کا مطالبہ کر دیا
سمگلنگ کے مسائل
افغانستان کے لیے ٹرانزٹ ٹریڈ کا سامان چمن سے ہی گزرتا ہے، جس کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں بھاری بھرکم ٹرکوں اور ٹریلروں کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ یہ سامان افغانستان میں جا کر اتارا جاتا ہے اور پھر وہاں سے مزدوروں، خچروں اور گاڑیوں کے ذریعے دوبارہ پاکستان میں واپس آ جاتا ہے۔ اس سرحدی علاقے میں کوئی دفاتر، فیکٹریاں یا صنعتی ادارے نہیں ہیں، زراعت بھی برائے نام ہے، اس لیے مقامی باشندوں کے پاس سمگلنگ کے سوا روزگار کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھٹو نے ٹرین کے ذریعے راولپنڈی سے کراچی تک سفر کیا، ہر سٹیشن پر ہزاروں افراد جمع ہو جاتے اور اعلان تاشقند کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے
حکومتی اقدامات
ٹریفک کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر، حکومت نے کھوجک پاس کے خواجہ آمران کے پہاڑی سلسلے میں ایک متبادل راستے کی تعمیر کا سوچا ہے۔ یہاں بھاری ٹریفک خاص طور پر برف باری کے دوران بہت مشکل سے گزرتی ہے، جس کی وجہ سے کئی مشکلات پیش آتی ہیں۔ خاص طور پر ان دنوں سفر کرنا وقت طلب اور خطرناک ہو جاتا ہے۔
مسائل کا حل
ان مشکلات کا حل کرنے کی غرض سے جب متبادل راستوں پر سروے کیا گیا تو اس کھوجک سرنگ کا پھر سے تذکرہ شروع ہوا۔ سروے کے نتائج کے مطابق تین حل تجویز کیے گئے تھے:
- کھوجک پاس پر موجود ساری موڑ ختم کرکے موجودہ سڑک کو سیدھا اور کشادہ کرنا۔
- اس علاقے میں ایک نئی سڑک تعمیر کرنا اور اس کے ساتھ ایک نئی سرنگ بنانا۔
- اس سرنگ کے ذریعے معیاری سفر کو برقرار رکھنا، خاص طور پر برف باری کے دوران۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔