اندھوں میں کانا راجہ والی بات، میری حماقت نے سب کا بھرم رکھ لیا، کبھی بسیں وقت مقررہ پر منزل پر پہنچا کرتی تھیں، سفر بھی نسبتاً سستا اور آرام دہ ہوتا
مصنف
شہزاد احمد حمید
یہ بھی پڑھیں: یرسٹر محمد علی سیف کی اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
قسط
255
یہ بھی پڑھیں: ایک اہم صوبائی عہدیدار ڈیرہ اسماعیل خان میں طالبان کو ہر مہینے کتنے پیسے دیتا ہے؟ وزیرداخلہ محسن نقوی کا ٹوئٹ، سوال اٹھا دیا۔
جی ٹی روڈ کی تاریخ
جی ٹی روڈ کبھی گجرات شہر سے گزرتی تھی اور جی ٹی ایس چوک پر گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کا بس اڈا تھا۔ (لالہ موسیٰ کے لئے ویگن بھی یہیں سے چلا کرتی تھی۔) کبھی یہ بسیں وقت مقررہ پر منزل سے روانہ ہو کر منزل پر پہنچا کرتی تھیں۔ سفر بھی نسبتاً سستا اور آرام دہ ہوتا۔ افسوس ہماری بے حسی نے اس ٹرانسپورٹ سروس کا بھی نام و نشان مٹا دیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسیحی آج ایسٹر کا تہوار منا رہے ہیں
سرکاری دفاتر اور مارکیٹ
اس اڈے کے قریب چند سرکاری دفاتر غالباً محکمہ شاہرات کے تھے اور ان کی بغل میں ایک بڑی مارکیٹ تھی جہاں گجرات شہر کا اکلوتا "چائینز ریسٹورنٹ" ہوا کرتا تھا۔ اس دور میں ابھی چائینز کھانے اتنے مقبول نہ تھے لیکن ہمیں لاہور میں رہتے ان کھانوں کا سواد لگ گیا تھا چنانچہ زبان کا سواد لاہوری رکھنے کے لئے 2 ماہ میں ایک بار عظمیٰ، میں اور عمر، احمد اس ریسٹورنٹ چلے آتے اور زبان کے ذائقہ کو چائینز کھانوں سے بدل لیتے تھے۔ عمر اور احمد بھی ان کھانوں کے شوقین تھے۔
یہ بھی پڑھیں: یومِ تکبیر، پاکستان کی دفاعی خودمختاری کی علامت ہے، سینیٹر دھنیش کمار
تفریحی لمحات
اس دور میں یہ ہماری بڑی تفریح تھی جبکہ دوسری تفریح مشتاق کے گھر ہر دوسرے ہفتے کھانا کھاتے۔ بھابھی خلوص سے بھرپور ذائقہ والا کھانا کھلاتی تھی جس میں لہسن والے چاولوں کا تو جواب ہی نہ تھا۔ واہ رے وقت۔
یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن سے مثبت جواب نہ ملنے کی صورت میں اصلی مسودے میں شامل شقوں کی منظوری کیلئے تیاریاں مکمل ، بلاول نے ملاقات کا احوال بتادیا
چوہدو گاؤں
جی ٹی روڈ کھاریاں کینٹ ریلوے پھاٹک سے ذرا پہلے اور سکائی ویز رسٹورنٹ کی بغل میں "چوہدو" نامی گاؤں تھا۔ ہم نام بگاڑنے اور اس کا غلط مطلب یا اپنے مطلب کے معنی نکالنے میں بھی ثانی نہیں رکھتے۔ گو آج بھی ایسا ہی ہے۔ ڈائریکٹر سی ڈی ہیڈ کواٹرز رانا افضال بمعہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر زرین شوکت، راجہ یعقوب اس گاؤں وزٹ پر آئے۔ میں بھی ہمراہ تھا۔ یہاں یونیسف کے ہینڈ پمپس کے حوالے سے کمیونٹی ملاقات تھی۔ ملاقات بعد میٹنگ۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی حکومت نے سیکیورٹی ناکامی کا الزام لیفٹیننٹ جنرل کمار پر ڈال دیا؟ ڈپٹی چیف آف اسٹاف پراتک شرما نادرن کمانڈر تعینات
اہم ملاقات
ڈائریکٹر سی ڈی بضد تھے کہ زرین شوکت گاؤں کا نام بتائیں۔ وہ انکاری رہیں۔ بعد میں رانا افضال نے خود ہی گاؤں کا نام لے کر ان سے پوچھا تو زرین کہنے لگیں "ہاں ایسا ہی نام تھا۔" افسروں کی ذھنیت کا اندازہ خود ہی لگا لیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے کابل حملے کا ہدف غیر ملکی جنگجو تھے، افغان صحافی
سنسکرت کا لفظ
مجھے کھاریاں آئے دو تین سال ہوئے تھے کہ ڈی جی لوکل گورنمنٹ بلوچستان (یہ سابق فوجی اور سی ایس پی افسر تھے) پنجن کسانہ یونین کونسل یونیسف پروگرام کی سٹیڈی کے لئے آئے۔
یہ بھی پڑھیں: روس کے ساحل پر 3 بڑی شدت کے زلزلے، سونامی الرٹ جاری
اہم شخصیات
ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ گوجرانوالہ کیپٹن (آر) شاہد اشرف تارڑ (بہت اچھے سی ایس پی افسر تھے۔ چیئرمین این ایچ اے اور فیڈرل سیکرٹری اورنگران وفاقی وزیر بھی رہے۔) میں کئی سال بعد ان سے اپنی ایک اے سی آر لکھوانے اسلام آباد آیا۔ چٹ بھیجی فوراً ہی بلا لیا۔ میں نے پوچھا؛ "سر! پہچان لیا۔" بولے؛ "شہزاد نہ میں بوڑھا ہوا ہوں اور نہ ہی تیری شکل بدلی ہے۔ چائے پلائی، اے سی آر لکھی۔ کہا تم بھجوا دیتے تب بھی میں لکھ کر واپس بھیج دیتا۔)
یہ بھی پڑھیں: شعبۂ صحت کے 21 منصوبوں کے لیے بھی رقم مختص
پروگرام پر بریفنگ
اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر راجہ یعقوب بھی ہمراہ تھے۔ میں نے پروگرام پر بریفنگ دی اور "رکھ پبی سرکار" کا لفظ میں دو تین بار استعمال ہوا۔ ڈی جی لوکل گورنمنٹ بلوچستان نے اچانک پوچھا؛ "رکھ پبی سرکار سے کیا مراد ہے۔" مجھے معلوم نہ تھا۔ بس حماقت سوجھی جواب دیا؛ "سر! سنسکرت زبان کے اس لفظ کا مطلب؛ رکھ سے مراد "گھنا" اور پبی سے مراد "جنگل" یعنی گھنا جنگل۔ کبھی یہ سارا علاقہ جنگل تھا۔" اندھوں میں کانا راجہ والی بات۔ میری اس حماقت نے سب کا بھرم رکھ لیا تھا۔ گیا۔ بعد میں یہ حماقت صداقت ہی نکلی تھی۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








