11 اگست کا دن، قائداعظم نے واضح کہا تھا’’آپ آزاد ہیں، اپنی مساجد میں یا کسی اور عبادت گاہ میں جانے کیلیے، ریاست کا اس سے کوئی سروکار نہیں‘‘

اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ
تحریر: امبر جبین
اقلیتوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کا تصور محض کسی آئینی شق یا سماجی نعرے تک محدود نہیں بلکہ ایک ریاست کی فکری بلوغت، تہذیبی وسعت اور عملی انصاف پسندی کا پیمانہ ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں خون کی قلت بڑا مسئلہ، شہری عطیہ کریں: وزیراعظم کی اپیل
یومِ اقلیت کی اہمیت
11 اگست کا دن، جو بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی اس تاریخی تقریر کی یاد دلاتا ہے جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا: "آپ آزاد ہیں، آپ اس ملک میں اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، اپنی مساجد میں یا کسی اور عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں... ریاست کا اس سے کوئی سروکار نہیں"۔ یہ الفاظ قائداعظم نے 11 اگست 1947 کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں کہے تھے، جب پاکستان کے قیام کا باضابطہ اعلان ہونے والا تھا۔ اس تاریخی خطاب میں انہوں نے واضح کیا کہ نئی مملکت میں ہر شخص کو مذہبی آزادی اور مساوی شہری حقوق حاصل ہوں گے۔ انہی الفاظ کی بنیاد پر پاکستان میں 11 اگست کو "یومِ اقلیت" منایا جاتا ہے، جو سرکاری طور پر 2009 سے ہر سال منایا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب پولیس کی خاتون افسر نے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کر دیا
پاکستان کی اقلیتوں کے حقوق کی حمایت
پاکستان کا سرکاری مؤقف ہمیشہ سے اقلیتوں کے مساوی شہری حقوق، مذہبی آزادی اور سماجی تحفظ پر مبنی رہا ہے۔ مختلف ادوار میں پاکستان نے اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر اقلیتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے۔ چاہے وہ عالمی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی کی قراردادوں کی حمایت ہو یا خطے میں مذہبی رواداری کے فروغ کے اقدامات، پاکستان نے ہر سطح پر اس اصول کو اجاگر کیا ہے کہ مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر کسی شہری کے ساتھ امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔ یہ مؤقف نہ صرف آئینِ پاکستان کی روح سے ہم آہنگ ہے بلکہ بانیٔ پاکستان کے وژن کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور: خاتون سے گاڑی چھیننے کی ویڈیو سامنے آگئی، ملزمان گرفتار
موجودہ حکومت کے اقدامات
اسی پس منظر میں موجودہ حکومتِ پنجاب، بالخصوص وزیراعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں اقلیتوں کے لیے جو عملی اقدامات کیے گئے ہیں، وہ نہ صرف قابلِ ستائش ہیں بلکہ ایک نئے دور کا آغاز بھی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنی حکومت کے ابتدائی 100دنوں ہی میں اقلیتوں کے مسائل کو مرکزی حیثیت دیتے ہوئے کئی اقدامات کا آغاز کیا۔ ان میں سب سے اہم اقدام "اقلیتوں کے لیے مساوی مواقع پالیسی" کا اعلان ہے، جس کے تحت سرکاری ملازمتوں، تعلیم، صحت، اور سماجی بہبود میں اقلیتوں کے لیے مختص کوٹہ پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جولائی میں معمول سے 25 فیصد زیادہ بارشیں ریکارڈ ہوئیں
ضلعی اقلیتی کمیٹیاں
پنجاب حکومت نے تمام اضلاع میں اقلیتوں کے لیے ضلعی اقلیتی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں تاکہ ان کے مسائل مقامی سطح پر سنے اور حل کیے جا سکیں۔ لاہور، فیصل آباد، ملتان، راولپنڈی، اور گوجرانوالہ جیسے بڑے شہروں میں اقلیتی عبادت گاہوں کی تزئین و آرائش کے لیے خصوصی فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ درباروں، گرجا گھروں، مندروں اور گردواروں کی بحالی کے لیے محکمہ اوقاف اور محکمہ اقلیتی امور مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں۔ کلیسا روڈ لاہور پر تاریخی سینٹ میری چرچ کی بحالی، ننکانہ صاحب میں سکھ یاتری سہولت سینٹر کا قیام، اور حال ہی میں وزیراعلیٰ مریم نواز کی کرتار پور کاریڈور میں سکھ وفد سے ملاقات اور خیرمقدمی اقدامات اس سلسلے کی روشن مثالیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کی ریسرچ لیب سے درجنوں بندر بھاگ نکلے
تعلیمی اقدامات
تعلیم کے میدان میں اقلیتی طلباء و طالبات کے لیے اقلیتی اسکالرشپ پروگرام کا دوبارہ اجرا کیا گیا ہے، جس سے ہر سال ہزاروں طلباء مستفید ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، پنجاب ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام میں اقلیتوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں تاکہ وہ فن، ثقافت اور دیگر شعبہ جات میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کر سکیں۔
یہ بھی پڑھیں: تجارتی اور سرمایہ کاری کو فروغ دینا چاہتے ہیں، تھائی لینڈ کی کاروباری کمیونٹی مراعات سے فائدہ اٹھائے: وزیر اعلیٰ مریم نواز
وزیر اعلیٰ کی نئی پہل
وزیراعلیٰ مریم نواز نے حال ہی میں وزارتِ اقلیتی امور کو فعال بنانے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ سطحی مانیٹرنگ سیل بھی قائم کیا ہے، جو اقلیتوں سے متعلق شکایات، تجاویز اور مسائل کو براہ راست وزیراعلیٰ آفس تک پہنچاتا ہے۔ اس اقدام سے اقلیتوں میں اعتماد کا ایک نیا احساس پیدا ہوا ہے کہ حکومت صرف دعوے نہیں کرتی بلکہ ان کی آواز کو سنتی بھی ہے اور اس پر فوری عملدرآمد بھی کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سابق پی ٹی آئی رہنما جاوید بدر کا نواز شریف کے نام کھلا خط، ماضی میں الزام تراشی پر معافی مانگ لی
بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے اقدامات
معاشرتی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے حکومت پنجاب نے تمام سرکاری اداروں میں بین المذاہب ہم آہنگی کے فوکل پرسنز مقرر کیے ہیں تاکہ اقلیتوں سے متعلقہ حساس امور پر بروقت اقدامات کیے جا سکیں۔ بین المذاہب کانفرنسز، امن واکس، اور مشترکہ تہواروں کی سرپرستی پنجاب حکومت کے وژن کا حصہ ہے جو ایک متحد، خوشحال اور متوازن معاشرے کی تشکیل کی طرف پیش قدمی ہے۔
نتیجہ
آخر میں، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ محض ایک سرکاری فرض نہیں بلکہ ایک قومی فریضہ ہے۔ پاکستان کی بقاء، استحکام اور ترقی اسی وقت ممکن ہے جب ہم ہر شہری کو برابر کا درجہ دیں، اس کی شناخت، عقیدے اور ثقافت کا احترام کریں، اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں جیسا ہم اپنے لیے چاہتے ہیں۔ یومِ اقلیت ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ پاکستان صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، بہائی اور تمام اقلیتوں کا بھی اتنا ہی وطن ہے۔ اور اگر ہم واقعی قائداعظم کے پاکستان کو حقیقت میں ڈھالنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اقلیتوں کو صرف "برداشت" نہیں بلکہ "قبول" کرنا ہوگا—پورے احترام، مساوات اور بھائی چارے کے ساتھ۔